• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جرگہ‘‘ دیکھنے اور پڑھنے والے جانتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے کبھی سازشی نظریات پر یقین نہیں کیا۔ پہلے دن سے یہ رائے رہی کہ انہیں القاعدہ کے ایما اور بیت اللہ محسود کے حکم پر تحریک طالبان نے مروایا۔ اپنی اس رائے کے حق میں میرے پاس جو دلائل اور شواہد تھے وہ وقتاً فوقتاً سامنے لاچکا ہوں ۔ عرض کرتا رہا کہ پرویز مشرف کی خواہش ہوسکتی ہے، ان کی حکومت کی غفلت ہوسکتی ہے ، لاپروائی ہوسکتی ہے لیکن چونکہ مجھے یقین تھا کہ قتل کے ذمہ دار بیت اللہ محسود اور ان کے ساتھی تھے اور چونکہ ان حالات میں پرویز مشرف اور القاعدہ یا بیت اللہ محسود کے مابین کسی کوآرڈنیشن یا منصوبہ بندی کا امکان نہیں تھا ، اس لئے غفلت کا مرتکب قرار دے کر بھی کبھی پرویز مشرف کو ملزم نہیں مانا۔ اسی طرح کبھی اس سازشی نظریے کو بھی وقعت دینے کا روادار نہیں ہوا جس کی رو سے خاکم بدہن بے نظیر بھٹو کے قتل میں خود ان کے شوہر آصف علی زرداری کا ہاتھ ہوسکتا تھا۔ چونکہ سیاسی طور پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا فائدہ آصف علی زرداری کو پہنچا ، اس لئے سازشی نظریات پھیلانے والوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ خاکم بدہن زرداری صاحب کی یہ خواہش ہوسکتی تھی کہ بی بی میدان میں نہ رہیں لیکن چونکہ مجھے محترمہ کے قتل کے منصوبے میں القاعدہ اور بیت اللہ محسود کے ہاتھ کا یقین تھا اور چونکہ مجھے زرداری صاحب اور بیت اللہ محسود کے مابین کوآرڈنیشن کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا ، اس لئے کبھی اس سازشی نظریے کو بھی اہمیت نہیں دی ۔ یوں بھی میں تصور نہیں کرسکتا کہ زرداری صاحب اتنے گر سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ماں کے قتل کی خواہش کریں ۔ ہاں میرے نزدیک بے نظیر بھٹو کے قتل میں ذرہ بھر ہاتھ نہ ہونے کے باوجود پرویز مشرف ان کے مجرم ہیں ۔ ان کے مجرم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انہوںنے بے نظیر بھٹوکے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے ۔ این آر او کے بعد بھی دوبارہ مارشل لا نافذ کیا۔ ان کی وطن واپسی پر انہیں مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی ۔ سانحہ کار ساز میں اللہ نے انہیں معجزانہ طور پر بچا لیا لیکن اس کی تحقیقات میں بھی پرویز مشرف نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی ۔ پرویز مشرف کی حکومت کے پاس اگر اطلاع تھی کہ پنڈی میں محترمہ پر حملہ ہونے والا ہے تو صرف پیغام رسانی پر اکتفا کرنے کی بجائے ان کی حکومت کو بہر صورت محترمہ کو جانے سے روک دینا چاہئے تھا۔ وہ رکیں نہیں تو پھر انہیں خاطر خواہ سیکورٹی فراہم کرنی چاہئے تھی ۔ اسی طرح جائے وقوعہ کو فوراً دھوکر پرویز مشرف کی حکومت نے ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ وقوعہ کے بعد پرویز مشرف کی حکومت نے تحقیقات کرنے میں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں وہ پھرتی نہیں دکھائی جو اسے دکھانی چاہئے تھی ۔ اس تناظر میں قتل میں کوئی ہاتھ نہ ہونے کے باوجود پرویز مشرف محترمہ کے مجرم قرار پاتے ہیں ۔ اسی طرح زرداری صاحب یوں مجرم تھے کہ انہوں نے خود امریکہ میں بیٹھ کر بے نظیر بھٹو کو پاکستان بھیج کر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے ان کی سیکورٹی جیسے حساس معاملے کو ایک غیرحساس شخص کے سپرد کیا۔ بے نظیر بھٹو کی قربانی کی وجہ سے زرداری صاحب حکمران بنے لیکن حکمران بننے کے بعد انہوں نے اسی بے نظیر بھٹو کی قتل کی تحقیقات اور پیروی کو مذاق بنا دیا۔ کبھی اقوام متحدہ کے کمیشن کا ڈرامہ رچایا تو کبھی الٹے سیدھے بیانات دیتے رہے ۔ پرویز مشرف سے اس معاملے میں باز پرس کرنے کی بجائے انہوں نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ جب تک وہ پاکستان میں رہے ، زرداری صاحب نے محترمہ کے قتل کے معاملے میں ایک بار بھی پرویز مشرف کی طرف انگلی نہیں اٹھائی لیکن ان کے جانے کے بعد انہیں اشارے کرنے شروع کئے ۔ خود زرداری صاحب ، گیلانی صاحب ، رحمان ملک صاحب ، بابر اعوان صاحب اور اسی طرح کے دیگر لوگ الٹے سیدھے بیانات دیتے رہے ۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل سے قبل ای میل میں جن لوگوں کے نام لئے تھے ، ان میں سے ایک یعنی پرویز الٰہی کو انہوں نے گلے لگا کر اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم بنا ڈالا ۔ اس تناظر میں میں زرداری صاحب کو بھی محترم کا مجرم گردانتا ہوں کیوں کہ ان کی قربانی کو تو انہوں نے سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا لیکن ان کے قاتلوں تک پہنچنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ان لوگوں سے کوئی باز پرس کی جن کی طرف محترمہ نے مرنے سے قبل اشارے کئے تھے۔
بہر حال گزشتہ نو سالوں میں ایک طرف محترمہ کے نام پر سیاسی ڈرامے ہوتے رہے اور دوسری طرف بادل ناخواستہ عدالتی کارروائی جاری رہی ۔ کبھی جج بدلتے رہتے اور کبھی گواہ اور پراسیکیوٹر قتل ہوتے رہے ۔ بالآخر گزشتہ روز متعلقہ عدالت نے فیصلہ سنا دیا اور ایسا فیصلہ سنا دیا کہ جس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا۔ جو ملزم گرفتار تھے ان سب کو بری کردیا اور بیچارے پولیس افسران کو قید کی سنگین سزائیں سنادیں ۔ میں قانون اور اس کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا لیکن ایک عام ذہن بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس فیصلے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے ۔ پولیس افسران کو تحقیقات کے ضمن میں غفلت کا مرتکب قرار دیاجاسکتا ہے لیکن بہر حال ان کا جرم یا اس کی منصوبہ بندی میں کوئی ہاتھ نہیں ۔ اب اس وقت ملک کے کرتا دھرتا جنرل پرویز مشرف تھے لیکن ان کو ایسی سزا نہیں سنائی گئی ۔ ان پولیس افسران کی طرف محترمہ نے اپنی زندگی میں کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن جنرل پرویز مشرف کی طرف محترمہ نے پہلے بھی اشارے کئے تھے ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستانی نظام میں یہ ناممکن ہے کہ اس وقت جائے وقوعہ کو دھونے کا حکم ان پولیس افسران نے اپنے تئیں دیا ہو۔ یہ کام انہوں نے جنرل پرویز مشرف یا ان کے کسی ماتحت کے حکم پر کیا ہوگا ۔ اگر پولیس افسران کو اتنی بڑی سزا ملی تو پھر جنرل پرویز مشرف یا ان کے اس ماتحت کو وہ سزا کیوں نہیں ملی ۔ یہ پولیس افسران اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ماتحت تھے لیکن جہاں پولیس افسران کو اتنی سنگین سزا ملی وہاں وزیراعلیٰ کا کوئی ذکر نہیں ۔ اسی طرح اس وقت کے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا بھی کوئی ذکر نہیں ۔ دوسری طرف جن ملزمان کو بری کردیا گیا ہے ان میں ایک وہ بھی ہے جو خودکش جیکٹ سمیت گرفتار ہواتھا۔ا ب ہم جیسے طالب علموں کا تو یہ بیانیہ تھا کہ محترمہ کے قتل کا منصوبہ القاعدہ کے ایماپر بیت اللہ محسود نے تیار کیا تھا اور اسے ان کے طالبان ہی نے عملی جامہ پہنایا تھا لیکن عدالتی فیصلے میں بیت اللہ محسود کے متعلقین کی مکمل بریت اور صرف پولیس افسران کی سزائوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جو کچھ تھا وہ ایک سازش تھی جو ریاستی کارندوں کی طرف سے کی گئی تھی ۔ اب اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس پر کوئی کیسے یقین کرسکتا ہے کہ یہ سازش صرف دو پولیس افسران کی سطح ٖپر تیار ہوئی تھی ۔نہ جانے کیا ہوا اور کیسے ہوا لیکن بہر حال بے نظیر بھٹو قتل سے متعلق اس عدالتی فیصلے نے عدلیہ کےفیصلوں پر ایک نیاسوال اٹھا دیا ہے۔

 

.

تازہ ترین