• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ بہاولپور کا معاملہ ...سویرے سویرے…نذیرناجی

لاہور سے جمیل احمد پال صاحب نے بہاولپور صوبے کے حوالے سے ایک مکتوب تحریر فرمایاہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
جناب نذیر ناجی صاحب
السلام علیکم
پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے آپ کا کالم پڑھا‘ آپ نے صوبہ بہاولپور کی بحالی کی حمایت کی ہے۔ بنیاد یہ کہ چونکہ ون یونٹ کے قیام سے پہلے یہ ایک آزاد ریاست تھی‘ چنانچہ اسے اسی صورت میں بحال کرنا ایک مناسب بات ہے۔
آج کل پنجاب کی تقسیم یا نئے صوبوں کی تشکیل کی پرزو روکالت کرنا فیشن میں داخل ہے چنانچہ لگتا ہے کہ آپ بھی اسی رو میں بہہ گئے ہیں اور ایسی تقسیم کے عواقب و نتائج پر غور نہیں فرمایا۔ کچھ معروضات پیش ہیں‘ ذرا دیکھ لیجئے۔
بہاولپور کی بحالی کی بات بظاہر قرین انصاف لگتی ہے لیکن ذرا غور فرمایئے کہ کیا صرف ریاست بہاولپور ہی ون یونٹ سے پہلے آزاد علاقہ تھا‘ کیا خیرپور‘ سوات‘ چترال‘ دیر اور قلات کی ریاستیں صوبوں میں ضم تھیں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے‘ بہاولپور ہی نہیں‘ دیگر بہت سی ریاستیں بھی ون یونٹ سے پہلے بہاولپور والے سٹیٹس کی مالک تھیں۔ ان ریاستوں کا اب کیا قصور ہے کہ انہیں تو صوبوں ہی میں ضم رکھا جائے اور بہاولپور کو سابقہ صورت میں بحال کر دیا جائے؟ کیا یہ ان ریاستوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ بہتر ہو گا کہ آپ بہاولپور کے ساتھ ساتھ دیگر تمام ریاستوں کی بحالی یا صوبہ کا درجہ دیئے جانے کی وکالت بھی کریں تاکہ بہاولپور کی بحالی سے جو دودھ کی نہریں وہاں بہنے والی ہیں‘ وہ نہریں باقی ریاستوں میں بھی جاری ہو سکیں۔
عام طور پر صوبوں کی تعداد بڑھانے کے لئے افغانستان اور سری لنکا کی مثال دی جا رہی ہے۔ جناب! افغانستان اور سری لنکا میں ”صوبے“ سے مراد ضلع ہوتی ہے اور ہمارے ہاں پہلے ہی ضلعے مناسب تعداد میں موجود ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر بڑھائے بھی جاتے ہیں۔ نیز صوبوں کی تعداد زیادہ ہونا کس لحاظ سے کوئی خوبی کی بات ہے؟ کیا افغانستان کی مثال دینے والے صاحبان پاکسان کو بھی ”افغانستان“ بنا دینا چاہتے ہیں جہاں کی آدھی آبادی پاکستان اور ایران میں دھکے کھا رہی ہے اور باقی ہیروئن‘ کلاشنکوف‘ سمگلنگ اور دہشت گردی کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہی ہے۔ اگر پچاس صوبے بنا کر بھی اقتدار اسلام آباد کے پاس ہی رہنا ہے (جیسا کہ ہمارے ملک کا رواج ہے) تو پھر صوبے بنانے سے کیا حاصل؟
اس وقت سندھ اور پنجاب میں خاص طور پر پانی کی تقسیم کا مسئلہ الجھا ہوا ہے۔ دونوں صوبے اس سلسلے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہتے ہیں۔ پنجاب کی تقسیم سے کیا پانی کا مسئلہ مزید نہ الجھ جائے گا اور پنجاب ہی کے دونوں حصے پانی کے معاملے میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں گے۔ کیا اس سے ملک کمزور نہ ہو گا؟
صوبوں کی تشکیل کا نزلہ دراصل صرف پنجاب ہی کی تقسیم کیلئے ہے لیکن کیااس کے بعد سندھ میں اردو صوبے کے قیام کی جو تحریک چلے گی‘ اس پر قابو پانا ممکن ہو گا؟ کیا سندھی یہ عمل ہونے دیں گے؟ نفرتوں کی آگ میں کیا کیا بھسم ہو گا؟ کیا آپ نے اس پر غور فرما لیا ہے؟
امید ہے آپ ان چند معروضات پر غور فرمائیں گے۔ صوبوں کی تشکیل کوئی فیشن کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ جذبات میں کرنے والا فیصلہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو آسانی فراہم کی جائے‘ ضلعے اور تحصیل کے کام وہیں سرانجام دیئے جائیں اور لوگوں کو اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ کے چکر نہ لگوائے جائیں۔
آپ کا مخلص
جمیل احمد پال
میں نے یہ خط من و عن شائع کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض علمی مغالطے کیسے کیسے دلائل کی وجہ بنتے ہیں۔ میں نے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کرنے والوں میں سے کسی کو افعانستان اور سری لنکا کی مثال دیتے نہیں دیکھا۔ سب جانتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں کے علاوہ ایران میں بھی چھوٹے انتظامی یونٹ ہوتے ہیں۔ بہاولپور کا مسئلہ برصغیر کے خصوصی حالات میں تقسیم کے فارمولے کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ بات درست نہیں کہ بہاولپور کا معاملہ دیگر ریاستوں کی طرح ہے۔ خیرپور‘ سوات‘ چترال‘ دیر اور قلات کا معاملہ مختلف تھا۔ یہ تمام ریاستیں پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر تھیں۔ کسی کی سرحد بھارت کے ساتھ نہیں ملتی تھی۔ ایسی تمام ریاستوں کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ بھارت نے بھی یہی کیا۔ کشمیر اور بہاولپور ‘ دو ایسی ریاستیں تھیں‘ جن کے حکمرانوں کو جونا گڑھ اور ماناودر کی طرح یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس ملک میں چاہیں شامل ہو جائیں۔ حکمرانوں کو یہ اختیار مسلم لیگ کے مطالبے پر دیا گیا تھا۔ کانگریس کا مطالبہ یہ تھا کہ ایسی ریاستوں کے عوام کویہ حق دیا جائے اور اکثریت کا فیصلہ نافذالعمل ہو۔ مسلم لیگ نے اسے رد کر کے حکمرانوں کو اختیار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ منظور ہو گیا۔ نتیجے میں کشمیر کا تنازعہ ہمارے گلے پڑا۔ نواب آف بہاولپور نے تمام مسلمانوں کی توقع کے مطابق پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ بہاولپور کی دوسری امتیازی حیثیت یہ ہے کہ جب ون یونٹ بنایا گیا‘ اس وقت بہاولپور کو صوبے کا درجہ دیا جا چکا تھا۔ اس کے پہلے وزیراعلیٰ صاحبزادہ حسن محمود تھے۔ باقی ریاستوں کو ختم کر کے انہیں ون یونٹ میں ضم کیا گیا۔ بہاولپور کو ون یونٹ میں شامل کرتے وقت یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر صوبے بحال کئے گئے‘ تو بہاولپور بھی اسی حیثیت میں بحال ہو گا‘ جس حیثیت میں اسے ون یونٹ میں شامل کیا جا رہا تھا۔ جب یحییٰ خان نے صوبوں کو سابقہ حیثیت میں بحال کیا‘ تو بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ بہاولپور کی بطور صوبہ بحالی کا مطالبہ کرنے والے‘ اپنا وہی حق مانگ رہے ہیں‘ جو انہیں پہلے سے حاصل تھا اور نواب آف بہاولپور نے اپنے اختیار اور رضامندی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ دیگر ریاستوں کی طرح مجبور ہرگز نہیں تھے۔ بہاولپور کو صوبہ بنانے کا فیصلہ حکومت پاکستان اور ریاست بہاولپور کی حکومت کے درمیان ہوا تھا۔ اس کی حیثیت دیگر صوبوں جیسی تھی۔ ون یونٹ توڑتے ہوئے دیگر صوبے بحال کر دیئے گئے اور بہاولپور کو اس کا حق دینے سے انکار کیا گیا۔یاد رکھنا چاہیے کہ بہاولپور کے عوام اپنی آزادی و خودمختاری سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے۔ پنجاب کا حصہ بنا کر انہیں اقتدار کے کھیل سے باہر کر دیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں نے بہاولپور کی نمائندگی سیاسی اعتبار سے اپنے کنٹرول میں کر لی اور بہاولپور سمیت سارے جنوبی پنجاب کی طرف سے اقتدار میں حصہ لینے لگے۔ بہاولپور کا کوئی سیاستدان وفاقی یا صوبائی حکومت میں قابل ذکر حیثیت سے شامل نہیں ہو سکا۔ جنوبی پنجاب اور بہاولپور میں انتہائی اہم فرق یہ بھی ہے کہ بڑے جاگیردار ملتان‘ راجن پور‘ مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازی خان‘ خانیوال اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہاولپور میں رحیم یار خان سے لے کر بہاولنگر تک دو تین سے زیادہ بڑے جاگیردار نہیں ہیں۔ یہاں آبادی کی اکثریت غریب‘ نچلے متوسط طبقے اور بالائی متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔اسے جاگیرداروں کے زیراثر رہنے کی عادت نہیں۔ صوبہ بہاولپور کے مطالبے کو دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
تازہ ترین