1997میں جب میاں محمد نواز شریف دوسری بار اقتدار میں آئے تو ان کی حکومت کے پہلے چالیس دنوں میں مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا جس کی ان کالموں میں تعریف کی گئی تھی کیونکہ مردم شماری سے پاکستان کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اس وقت بھی پارٹی کے اندر سے اس فیصلے کی مخالفت ہو رہی تھی کیونکہ مردم شماری سے شہری حلقوں میں اضافہ ہوسکتا تھا اور دیہی علاقوں کی نشستوں میں کمی سے جاگیرداروں کے چنگل میں پھنسے دیہاتیوں کی زندگی میں کوئی آسانی آسکتی تھی۔ 1998میں ہونے والی پانچویں مردم شماری کے بعد میاں نواز شریف کے تیسرے دورِ اقتدار میں دو مرحلوں میں مکمل کی جانے والی چھٹی خانہ و مردم شماری کا آغاز 15مارچ 2017کو ہوا۔ ایک خبر کے مطابق 9برس کے التوا سے ہونے والی اس مردم شماری کے غیرسرکاری اور غیر حتمی اندازوں کے مطابق ملک کی آبادی 21سے 22کروڑ تک ہوسکتیہے۔ ملک گیرمردم شماری کے ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق کراچی ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ 49لاکھ اور لاہور کی آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ شہر قائد کی آبادی میں 59فیصد جبکہ لاہور کی آبادی میں 116فیصد کا اضافہ ہواہے۔ کراچی کی آبادی 1998میں 93لاکھ 39ہزار اور لاہور کی 51لاکھ 43ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد کی آبادی 20لاکھ سے بڑھ کر 32لاکھ ہوگئی ہے۔ راولپنڈی 10لاکھ سے بڑھ کر 20لاکھ نفوس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ گوجرانوالہ کی آبادی 1998میں 11لاکھ تھی جو بڑھ کر 20لاکھ تک پہنچ گئی یعنی اس شہر کا نمبر پانچواں ہے۔ ملک کا چھٹا بڑا شہر پشاور ہے جس کی آبادی 9لاکھ 82ہزار سے بڑھ کر 19لاکھ ہوچکی ہے جبکہ ملتان کا نمبر ساتواں ہے۔ اس تاریخی شہر کی آبادی 11لاکھ سے بڑھ کر 18لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے اس ساتویں شہر ملتان کے حوالے سے فارسی کا شعر ہے؎چہار چیز است تحفہ ٔ ملتانگرد و گرما، گدا و گورستانگرد کا مطلب ہے کہ یہاں آندھیاں بہت آتی ہیں۔ گرما کا مطلب ہے کہ گرمی بہت ہوتی ہے۔ گورستان کا مطلب ہے کہ یہاں قبرستان بہت ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے۔ گد ا کا مطلب ہے کہ یہاں بہت سے اللہ والے لوگ ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ملتان کا ایک نام ’’مدینۃ الاولیا‘‘ بھی ہے۔ ان چار چیزوں کے علاوہ سرائیکی ’’گفتار‘‘ اور ’’نسوانی حسن‘‘ کا بھی چرچا رہا ہے۔ خاقانِی ٔ ہند شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ نے ایک شعر میں ملتان کے حسن کا کچھ اس طرح سے ذکر کیاہے۔تھا ذوقؔ پہلے دلّی میں پنجاب کا سا حسنسنتے ہیں اب وہ پانی ملتان بہہ گیایہ ایک تحقیق ہے کہ دلّی کی کوئی حکومت تب تک حکومت میں رہتی تھی جب تک اس کا ملتان مضبوط رہتا تھا یعنی برصغیر کی سیاست میں ’’گردش ِ ایام‘‘ کا بھی ملتان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ دراصل ’’ملتان کا مضبوط ہونا‘‘ ایک تاریخی، سیاسی بلکہ حکومتی محاورہ ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ آزادی سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں دلّی کے تخت پر صرف وہی حکمران، بادشاہ یا سلطنت اپنا قبضہ جما سکتا تھا جس کا ملتان مضبوط ہوتا تھا اور اپنا یہ قبضہ اس وقت تک قائم اور برقرار رکھ سکتا تھا جب تک ان کا ملتان مضبوط رہتا تھا یعنی اسے اس سرائیکی وسیب کی حمایت اورتعاون حاصل رہتا تھا۔ ملتان کے کمزور پڑتے ہی اقتدار ڈانواں ڈول ہوجاتا تھا، تخت الٹ جاتا تھا اور تختے میں تبدیل ہوجاتا تھااور تخت پر وہ حکمران قبضہ جما لیتا تھا، جس کا ملتان مضبوط ہو تا تھا۔ یہ محاورہ اور اس کا تاریخی پس منظر مجھے عرش صدیقی (مرحوم) نے بتایا تھا۔ جو شاعر، افسانہ نگار، مورخ اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے قومی شہرت رکھنے والے ایک استاد بھی تھے۔ خیر دلّی کے تخت سے اب ملتانیوںکا وہ تعلق نہیں رہا جو تقسیم ہند سے پہلے تھا مگر اسلام آباد کے تخت میں ملتان کی مضبوطی ابھی تک اہمیت رکھتی ہے۔ عددی اعتبار سے ساتویں نمبر پر ہونے کےباوجود ملتان کو ملکی سیاست میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے طریقے سے اپنا اپنا ملتان مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ ن لیگ کے دوسرے دور ِ حکومت میں ان کا ملتان اتنا مضبوط تھا کہ نواز شریف کے بعد پرویز مشرف کے خلاف آواز کا بنیادی مرکز ملتان بن گیا۔ پیپلزپارٹی نے بینظیر بھٹو کےبعد اپنا پہلا وزیراعظم ملتان سے چنا۔ عمران کے دھرنے کو ایمپائر کی انگلی اٹھنے سے چند لمحے پہلے سب سے بڑا جھٹکا ملتان سے لگا۔ آج کل ن لیگ میٹرو ٹرین کے ذریعے اپنا ملتان مضبوط کرنے میں لگی ہے جبکہ اسی میٹرو ٹرین میں گھپلے تلاش کرکے پی ٹی آئی اپنا ملتان مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔عرش صدیقی کے بتائے اس محاورے کو میں نے بھی بڑی مضبوطی سے اپنے پلے باندھ لیا اور ملتان سے اپنے تعلق کو یا اپنے ملتان کو ہمیشہ مضبوط سے مضبوط تر کرتا رہا حالانکہ تخت حاصل کرنے اور اس کے نتیجے میں تخت الٹوانے اور پھر تختے پر چڑھنے کی کوئی خواہش یا تکلیف مجھے اپنے اندر کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی۔ پھر بھی مجھے اپنا ملتان مضبوط کرنااچھا لگا اور میرے پڑھنے والوں کا بھی ملتان مضبوط ہوتا گیا۔ میرے پڑھنے والوں میں وسیم رانا نے امریکہ سے میرے فیس بک پیج پر یہ فرمائش کی کہ میں ایک لسٹ جاری کروں جس میں یہ بتایا جائے کہ ’’فلاں فلاں شخص کا ملتان مضبوط ہے‘‘ یہ لسٹ میں جاری تو کرسکتا ہوں لیکن اس میں ایک مشکل ہے کہ تاریخی طور پر اس لسٹ میں شامل اشخاص اس میں سے خارج بھی ہوتے گئے اور ایک محتاط اندازےکے مطابق آج کل بھی اس لسٹ میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ کچھ احباب اس لسٹ میں سے خارج ہو رہے ہیں یا خود اپنا ملتان مضبوط رکھنے کے لئے کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آ رہے اور بہت سے نئے نام اس لسٹ میں داخل بھی ہو رہے ہیں یا کئے جارہے ہیں۔ ایسی صورت میں صرف انتظار کیا جاسکتا ہے کہ کون کون تختے پر آتا ہے اور کس کس کے حصے میں تخت لکھ دیاجاتا ہے اور جیسے ہی تخت اورتختے کا حتمی فیصلہ ہوگا میں اور میرے قاری دونوں اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ اپنی اپنی لسٹ جاری کردیں۔ اتنی دیر آپ ابراہیم ذوقؔ کی غزل کے چند اور اشعار سے لطف اندوز ہوں؎دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیاسن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیازاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوںکیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیاہے موجِ بحرِ عشق وہ طوفاں کہ الحفیظبے چارہ مشتِ خاک تھا انسان بہہ گیادریائے اشک سے دم تحریر حال دلکشتی کی طرح میرا قلم دان بہہ گیایہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پائوں کے آبلےنالہ سا ایک سنئے بیابان بہہ گیاکشتی سوارِ عمر ہوں، بحرِ فنا میں جسمجس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیاتھا ذوقؔ پہلے دلّی میں پنجاب کا سا حسنسنتے ہیں اب وہ پانی ملتان بہہ گیا۔