• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی دشمنوں کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کا مشورہ نہیں دیتا، خواجہ آصف کا بیان، ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے، چوہدری نثار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ سول ملٹری تنائو اتنا نہیں ہے جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، ہندوستان اور افغانستان میں دہشتگرد تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن انہیں کوئی گھر درست کرنے کا مشورہ نہیں دیتا، وزیرخارجہ کے ’’اپنا گھر درست کرنے‘ ‘ کے بیان سے شدید اختلاف ہے، اس کے بعد ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے، کالعدم تنظیمیں ملک میں دندناتی نہیں پھر رہی ہیں، شاہد خاقان عباسی کو مجھ سے مشاورت کے بعد وزیراعظم بنایا گیا،نواز شریف کے بعد شہباز شریف پارٹی صدارت کیلئے موزوں ترین امیدوار ہیں،پارٹی صدارت اور وزارت عظمیٰ کیلئے خود کو فٹ نہیں سمجھتا ہوں، وہ سمجھوتے نہیں کرسکتا جو وزارت عظمیٰ کیلئے کرنے پڑتے ہیں، پارٹی میں کبھی گروپ بندی کی نہ کبھی کروں گا ،یہ منافقت ہے، اختلافات کے باوجود میرا نواز شریف کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، عمران خان سے قربت اور دوستی کی وجہ سے پارٹی میں مجھ پر تنقید ہوتی تھی،پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت ٹرائل کورٹ، ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے دی، ووٹ کے تقدس کے مشن میں نواز شریف کے ساتھ ہوں مگر طریقہ کار پر اختلاف ہے، ووٹ کے تقدس کی بحالی محاذ آرائی سے نہیں گڈ گورننس سے ہوسکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘  کے دوسرے حصے میں میزبان سلیم صافی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔

سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کا پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مزید کہناتھا کہ مریم نواز کا اب تک کا کردار صرف نواز شریف کی بیٹی کے طور پر رہا ہے،بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں انہیں لیڈر کیسے مانا جاسکتا ہے، مریم نواز میں لیڈر بننے کی خواہش ہے تو پہلے اسے خود کو ثابت کرنا پڑے گا،مریم نواز اور بینظیر بھٹو میں زمین آسمان کا فرق ہے، بینظیر بھٹو نے جیلیں، گرفتاریاں اور جلاوطنی برداشت کی، کراچی آپریشن کی ملکیت سویلین ہے اور سویلین رہنی چاہئے، کراچی آپریشن فوج نے نہیں، میں نے شروع کیا، نیکٹا وزارت داخلہ کے نہیں ،وزیراعظم کے ماتحت آتی ہے، کالعدم تنظیمیں ملک میں دندناتی نہیں پھر رہی ہیں، میں نے کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں کے ساتھ تصویریں نہیں بنوائیں، اگر کسی نے مجھ سے ملاقات کرلی تو کوئی گناہِ عظیم نہیں ہوگیا، سیاست چھوڑنے سے متعلق بیان کو میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا، مخصوص وجہ کی بنیاد پر میں نے وزارت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، واضح کردیا تھا کہ فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا خلاف میں وزارت سے مستعفی ہوجائوں گا .

نواز شریف کو ہمیشہ سمجھانے کی کوشش کی فوجی اور سویلین مائنڈ سیٹ میں فرق ہوتاہے، اختلافات بیٹھ کر طے کرنے چاہئیں، نواز شریف سے ہمیشہ کہا کہ کوئی آرمی چیف ’’اپنا بندہ‘‘ نہیں ہوسکتا ہے، پاکستان کی سا  لمیت اس وقت انتہائی خطرے میں ہے مگر ہم اپنی لڑائیاں لڑ رہے ہیں، بلیک اینڈ وائٹ انٹیلی جنس رپورٹس ہیں کہ ملکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں، مگر وہ اتنی ہائی پروفائل ہیں کہ چند لوگوں کے باہر شیئر نہیں ہوں گی۔

میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ اختلافات کے باوجود میرا نواز شریف کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، میری ہمیشہ کوشش رہی ہے نوا زشریف کو صحیح اِن پُٹ دی جائے،اس وقت نواز شریف پارٹی کے صدر نہیں، اس کے باوجود میرا ان کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے، اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ میرا شہباز شریف کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ مریم نواز دوست اور لیڈر کی بیٹی ہے مگر پھر بھی بچی ہے اسے شاید قائد کے طور پر تسلیم نہ کرسکوں، مریم نواز جب باضابطہ سیاست میں آئیں گی اور ان کا پروفائل بنے گا تب ہی لوگ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان میں لیڈرشپ کی صلاحیت ہے یا نہیں ، پیپلز پارٹی نے دس گیارہ سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد بینظیر بھٹو کو لیڈر کے طور پر قبول کیا، مریم نواز میں لیڈر بننے کی خواہش ہے تو پہلے اسے خود کو ثابت کرنا پڑے گا۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ سیاست چھوڑنے سے متعلق میرے بیان کو میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا، پریس کانفرنس میں واضح کہا کہ میرا کل تک مائنڈ سیٹ یہ تھا لیکن کسی چینل نے لفظ ’’کل تک‘‘ پر فوکس نہیں کیا، مخصوص وجہ کی بنیاد پر میں نے وزارت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا، اس کے بعد ایک ہفتے تک شہباز شریف سمیت دیگر سینئر پارٹی رہنما میرے پاس آتے رہے جبکہ درمیان میں مجھے پرابلم ہوگئی جس کی وجہ سے میری نقل و حرکت محدود ہوگئی جس کی وجہ سے میری پریس کانفرنس تاخیر کا شکار ہوتی رہی، سینئر پارٹی رہنمائوں سے بات چیت کے بعد پریس کانفرنس کا حدود و اربعہ طے ہوا تھا، اس بات چیت میں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، اسحاق ڈار، رانا تنویر کے علاوہ دیگر لوگ بھی تھے، میں مستعفی ہونا چاہتا تھا لیکن سینئر پارٹی رہنما ایسا نہیں چاہتے تھے، مجھے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے دیں اس کے بعد اپنا فیصلہ کریں، ایک خاص موقع پر جب میں بہت مایوس ہوا تو سیاست ہی چھوڑنے کا کہہ دیا تھا، لیکن سینئر رہنمائوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے یہ آپشن مسترد کردیا، میں نے ان پر واضح کردیا تھا کہ فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا خلاف میں وزارت سے مستعفی ہوجائوں گا اور میں وزارت عظمیٰ ، وزارت یا کسی عہدے کا امیدوار نہیں ہوں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ دوسری پریس کانفرنس اپنی وزارت کی کارکردگی قوم کے سامنے رکھنے کیلئے بلائی تھی مگر تاثر یہ دیا گیا جیسے میں پارٹی چھوڑنے والا ہوں، میڈیا نے خود اس حوالے سے معاملہ اچھالا اور پھر مجھ پر تنقید شروع کردی، میں نے اپنی وزارت کی کارکردگی کی رپورٹ تمام میڈیا چینلز، اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں کو بھیجی مگر چند لوگوں نے ہی اس کا تجزیہ کیا۔ سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو مجھ سے مشاورت کے بعد وزیراعظم بنایا گیا، میں نے ازخود کہہ دیا تھا میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں ہوں، نئی کابینہ میں بھی مجھے وزارت داخلہ کی پیشکش برقرار تھی، شاہد خاقان عباسی کابینہ بننے سے ایک دن پہلے بھی نواز شریف کے کہنے پر میرے پاس آئے تھے، اس وقت بھی میرا یہی موقف تھا کہ میں پارٹی اور آپ کو سپورٹ کروں گا مگر وزارت نہیں لوں گا، جمہوری ملکوں میں کسی پالیسی یا معاملہ پر اصولوں کی بنیاد پر خود کو کابینہ سے علیحدہ کرنا قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ میں نواز شریف کے بعد پارٹی میں سینئر ترین شخص ہوں مگر آج تک کوئی عہدہ نہیں لیا، میں ن لیگ کی صدارت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے مجھے وزیراعظم بننے کا آپشن دیا، میں پارٹی صدارت اور وزارت عظمیٰ کیلئے خود کو فٹ نہیں سمجھتا ہوں، میں وہ سمجھوتے نہیں کرسکتا جو اس عہدے کیلئے کرنے پڑتے ہیں ۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں نے پارٹی میں کبھی گروپ بندی کی نہ کبھی کروں گا یہ منافقت ہے، اختلاف ہوگا تو پارٹی کے اندر اس کا اظہار کروں گا ۔ چوہدر ی نثار نے کہا کہ عمران خان سے میری بہت قربت اور دوستی رہی ہے، مجھ پر پارٹی میں پیٹھ پیچھے تنقید بھی ہوتی رہی کہ میں عمرا ن خان اور پی ٹی آئی کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہوں حالانکہ ایسی بات نہیں تھی، ایک بزرگ کا قول ہے جس کے ساتھ تیس چالیس سال سے تعلق ہے اس کیخلاف بات کرتے ہوئے بھی تیس چالیس سال گزرنے چاہئیں، میرا عمران خان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے اگر کوئی سیاسی بات ہوتی ہے توضرور بات کرتا ہوں، عمران خان شریف آدمی ہیں، عمران خان اسکول کے زمانے سے ساتھ ہیں، ہمارے درمیان مشترک چیز کرکٹ تھی، ہم دونوں کالج کی کرکٹ ٹیم میں تھے، اس کے بعد دوستی جاری رہی۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کو بلیک اینڈ وائٹ میں باہر جانے کی اجازت سب سے پہلے ٹرائل کورٹ نے اور پھر ہائیکورٹ نے دی، اس کے بعد سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو باہر جانے کی باقاعدہ اجازت دی، اس کے باوجود اگر کوئی مجھ پر یا حکومت پر ذمہ داری ڈالنا چاہتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں، پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اگلے دن شام کو اپنا ٹکٹ بک کرالیا تھا، اس وقت تک سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تھا اس لئے انہیں جانے نہیں دیا گیا، جنرل مشرف کا سامان پہنچ چکا تھا مگر ان کے گھر پیغام دیا گیا کہ آپ نہ آئیں آپ کو نہیں جانے دیں گے، پرویز مشرف کو ڈھائی سال ای سی ایل میں رکھا اس کا کریڈٹ حکومت کو نہیں دیا جاتا۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ووٹ کے تقدس کے مشن میں نواز شریف کے ساتھ ہوں مگر طریقہ کار پر اختلاف ہے،،سپریم کورٹ یا فوج سے لڑائی کر کے یہ ممکن نہیں ہے، ملک کے عوام سے کارکردگی کی بنیاد پر رشتہ قائم ہونا چاہئے، سویلین اتھارٹی کے اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑے محافظ ملک کے عوام ہوتے ہیں، ترکی میں فوج باہر نکل آئی تھی لیکن ترک عوام نے حکومت کا دفاع کیا، صدر اردگان نے کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے ساتھ ایسارشتہ قائم کرلیا تھا کہ وہ اس کے معاون اور چوکیدار بن گئے۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ اپنے دور میں وزارت داخلہ کی کارکردگی پر بات کرنے کیلئے تیار ہوں، نیشنل ایکشن پلان کسی اور نے نہیں میں نے بنایا تھا، وزیراعظم نے نیپ کی تیاری کیلئے ایک ہفتہ دیا تھا میں نے پانچ دن میں کام مکمل کیا، نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی ذمہ دار وزارت داخلہ نہیں ہے، نیشنل ایکشن پلان میں وزارت داخلہ کے بارے میں تین یا چار نکات ہیں جس پر سب سے زیادہ کام ہوا، نیشنل ایکشن پلان میں دس نکات صوبوں ،چھ سات نکات مختلف وزارتوں اور تین یا چار فوج کے حوالے سے ہیں،وزیرستان کا آپریشن نیشنل ایکشن پلان میں نہیں ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن کی ملکیت سویلین ہے اور سویلین رہنی چاہئے، کراچی آپریشن فوج نے نہیں میں نے شروع کیا، میں کراچی کے معاملہ کو کابینہ میں لے کر گیا اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد آپریشن شروع کیا، اس وقت آرمی چیف جنرل کیانی نے کراچی آپریشن میں پوری سپورٹ فراہم کی، میرے کہنے پرجنرل کیانی نے ڈی جی رینجرز جنرل رضوان کی مدت میں توسیع کی، پہلے سابق ڈی جی رینجرز جنرل رضوان اورپھر جنرل بلال اکبر اچھے انداز سے کراچی آپریشن جاری رکھا۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ مدارس اصلاحات وزارت مذہبی امور اور وزارت تعلیم نے کرنی تھیں، وہ اصلاحات نہیں کرسکے تو میں نے ذمہ داری لی، وزارت داخلہ اور علماء کرام مدارس اصلاحات سے متعلق اتفاق کرچکے ہیں، اس معاملہ پر حتمی فیصلہ نواز شریف کی زیرصدارت میٹنگ میں ہونا تھا مگر وہ میٹنگ آج تک نہیں ہوئی۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ نیکٹا وزارت داخلہ کے نہیں وزیراعظم کے ماتحت آتا ہے، وزیر داخلہ صرف ایگزیکٹو کمیٹی کا سربراہ ہے، ایگزیکٹو کمیٹی اس وقت ملتی ہے جب بورڈ آف گورنرز ملیں لیکن بورڈ آف گورنرز کی کبھی میٹنگ نہیں ہوئی، آج نیکٹا بہت فعال ہے لیکن ابھی مزید کام کرنا ہے، نکیٹا ہزاروں کی تعداد میں انٹیلی جنس تعاون اور شیئرنگ کرتا ہے، نیکٹا کا بجٹ چند کروڑ سے ڈیڑھ ارب روپے تک جا پہنچا ہے، نیکٹا کے فوج اور صوبوں سے قریبی تعلقات ہیں، تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے باہمی تعاون میں فوج یا آئی ایس آئی رکاوٹ نہیں ہے، جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی بلڈنگ کی تزئین و آرائش جاری ہے، جے آئی ڈی کا سربراہ تجویز ہوچکا ہے، جے آئی ڈی کے باقاعدہ کام کرنے سے پہلے بھی نیکٹا باہمی تعاون کررہی ہے۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں ملک میں دندناتی نہیں پھر رہی ہیں، اس بیانیے سے بہت شدید تشویش اور اختلاف ہے، ہم اس طرح خود اپنے آپ کو چوٹ پہنچاتے ہیں، وزیرخارجہ کے ’’اپنا گھر درست کرنے‘ ‘ کے بیان سے شدید اختلاف ہے، اس کے بعد ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے، ہم نے اپنا گھر درست کرنے کیلئے جتنی قربانیاں دی ہیں دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی ہے، ہندوستان اور افغانستان میں دہشتگرد تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن انہیں کوئی گھر درست کرنے کا مشورہ نہیں دیتا۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میں نے کالعدم تنظیموں کے رہنمائوں کے ساتھ تصویریں نہیں بنوائیں، صرف ایک میٹنگ میں مولانا صاحب تھے جن کی جماعت پر پابندی تھی ،مگر یہ وہی مولانا صاحب ہیں جو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑچکے ہیں، ان مولانا صاحب کی ہر سینئر سیاسی لیڈر کے ساتھ تصویریں ہیں، یہ ن لیگ سے الیکشن ہار گئے تو ٹریبونل نے انہیں بطور ایم این اے بحال کردیا ، اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ یہ تو کالعدم ہیں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت کس نے دی،کوئی جماعت کالعدم ہے توا س کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے شہریت بھی لے لی گئی ۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے مجھ سے ملاقات کرلی تو کوئی گناہِ عظیم نہیں ہوگیا، بطور وزیرداخلہ میرے ہر طبقہ فکر سے رابطہ اور تعلقات ہیں ، انہوں نے بہت سے ایشوز پر میرے ساتھ تعلقات نبھائے بھی ہیں، ہم فرقہ واریت میں کمی اور امن لائے ہیں، ان سب لوگوں نے مذاکراتی عمل میں بڑا کردار ادا کیا ہے، ہمارے ہاں ایک گروپ کو علماء کا نام سن کر آگ لگ جاتی ہے، علمائے کرام ملک کا موثر اور اہم طبقہ ہے، ہمیں ان کی عزت اور اعتماد کرنا چاہئے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ میں نہ کبھی وزارت خارجہ کا امیدوار تھا نہ کبھی نواز شریف سے وزیرخارجہ بنانے کا مطالبہ کیا، وزیرخارجہ کا امیدوار ہوتا تو پچھلے چار سال یہ عہدہ خالی تھا میں درخواست کرسکتا تھا، میں نے امریکا، ہندوستان ، افغانستان، یو اے ای اور بنگلہ دیش کیخلاف بیانا ت نہیں دیئے، ان کے بیانات پر ردعمل کا اظہار کیا، اگر وزارت خارجہ یا حکومت پاکستان ایسے ایشو پر جواب نہ دے جس سے ملک کی تضحیک ہورہی ہو تو بطور وزیرداخلہ اس کا جواب دینا میری ذمہ داری ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ جب افغان کھلے عام پاکستان میں آجارہے تھے تب صدر بش اربوں روپے پاکستان کو دے رہے تھے، پاکستان کے ساتھ بھی ڈبل گیم ہورہا ہے، ہمیں ہر چیز خود پر سیاسی مخالفین پر ڈالنے کے بجائے دوسروں پر ڈالنی چاہئے، پاکستان کو اب اپنے موقف پر کھڑے ہونا چاہئے۔ سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سول ملٹری تنائو اتنا نہیں ہے جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، فوج نے تین مارشل لاء لگائے لیکن اسی فوج کے بہت سے آرمی چیفس نے مارشل لاء نہیں لگایا، اگر کوئی جنرل مارشل لاء لگاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج کا مائنڈ سیٹ بھی یہی ہے، نواز شریف کو ہمیشہ سمجھانے کی کوشش کی فوجی اور سویلین مائنڈ سیٹ میں فرق ہوتاہے، اختلافات کو بیٹھ کر طے کرنا چاہئے، نواز شریف سے ہمیشہ کہا کہ کوئی آرمی چیف ’’اپنا بندہ‘‘ نہیں ہوسکتا ہے، آرمی چیف میرا بھائی بھی آئے تو وہ پہلا کام ادارے کے مفاد میں کرے گا، آرمی چیف کو اپنے ادارے کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے اور حکومت کے ساتھ معاملات بھی مینج کرنے ہوتے ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات بہت اچھے بھی رہے ہیں انہیں مشاورت سے مزید بہتر کیا جاسکتا ہے، حکومت وقت اگر پرفارم کررہی ہو تو فوج کی مشاورت سے سول ملٹری تعلقات کو ایک اور ڈگر پر لے جاسکتی ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ سول ملٹری مذاکرہ کی رضا ربانی کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، سیاسی لوگوں اور میڈیا سمیت دیگر اداروں کے درمیان مذاکرہ بہت ضروری ہے۔

سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سمیت پانچ لوگ جانتے ہیں پاکستان کی سا  لمیت انتہائی خطرے میں ہے ،بلیک اینڈ وائٹ انٹیلی جنس رپورٹس ہیں کہ ملکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں، مگر وہ اتنی ہائی پروفائل ہیں کہ چند لوگوں کے باہر شیئر نہیں ہوں گی، میرا نہیں خیال نئے وزیراعظم کو اس کا پتا ہو۔

تازہ ترین