پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ مسائل زندگی کا حصہ اور زندہ قومیں ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ہماری قوم بھی ایک بہادر قوم ہے۔ جو ہر قسم کا چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ مگر ہماری لیڈر شپ نے جس طرح قوم کو مایوس کیا ہے۔ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ فوجی آمروں کا تو کہنا ہی کیا۔ وہ تو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے مگر ان جمہوری بزرجمہروں کا کیا کیجئے جو کہنے کو تو عوام کے غم میں نڈھال ہیں لیکن حقیقت میں مال بناؤ اور باہر جاؤ پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ کی ستائی عوام جن کو ہر پل جان کا دھڑکا لگا رہتا ہے ان کو عملاً IMF کے سامنے ڈال دیا گیا جن کا مقصد اس قوم کی عزت نفس سے کھیلنا اور ان کو بے وقار، غیر ذمہ دار قوم کے طور پر پیش کرنا ہے۔ قوم کو گروی رکھ کر قرضے لینے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کون عوام کو ان مسائل سے نجات دلائے گا۔ جمہوریت کے دل دادہ یہ کہتے ہیں کہ بہترین جمہوریت ہی مسائل کا حل ہے۔ مگر عملاً جمہوریت کے علم برادران کے تو نہ صرف حالات تبدیل ہو گئے بلکہ بیرونی ملکوں میں قوم کو گروی رکھ کر حاصل کیا جانے والا سرمایہ اور کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ میں اپنی برادری کے لوگوں کے خلاف تو نہیں مگر ہر رات کو ٹی وی پر سیاست دانوں کی پھرتیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ستائی قوم کو نت نئے طریقے سے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ الیکشن کے نعروں کا تو کہنا ہی کیا وہ تو صرف ووٹ لینے کا ایک بہانہ ہوا کرتے ہیں۔ آج الیکشن کو دو برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ پہلے قوم کو ججوں کی بحالی سے مسائل کے حل کو جوڑ دیا گیا حالانکہ ججوں کا مسئلہ بلاشبہ اہم مگر قوم کے سامنے تمام مسائل کا حل اس طرح پیش کیا گیا کہ بس جج بحال ہو گئے تو پلک جھپکتے ہر مسئلہ حل ہو جائے گا، جج بحال ہو گئے مگر قوم کے مسائل نہ ان سے متعلق تھے نہ ہی حل ہونے تھے۔ ججوں کی بحالی ایک خوش آئند قدم ہے۔ مگر جب ان کے فیصلے نہیں مانے جائیں گے تو پھر ملک کس طرف جائے گا۔ بلاشبہ عدلیہ نے اپنی ذمہ داری کا بھرپور ادراک کر لیا ہے اور وہ ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے تک و دو کر رہی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے اداروں کو مضبوط کیا جاتا ان کے فیصلوں کا احترام کیا جاتا اور سیاستدان ماضی کی غلطیوں کو دھرانے کی بجائے نئے پاکستان اور مستحکم پاکستان کے لئے کام کرتے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور عدلیہ کو زیر کرنے کے لئے پھر تصادم کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کی پہلی سیڑھی تو یہی ہے کہ احتساب کا عمل شفاف ہونا چاہئے۔ میں حضرت عمر فاروق کی مثال تو یہاں نہیں دوں گا مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے عملاً کوئی مثبت قدم اٹھائیں۔ میثاق جمہوریت ہو گیا اچھی بات ہے۔ اسمبلی کے ممبران کے الاؤنسز اور مراعات پر اتفاق رائے ہو گیا اچھی بات ہے۔ سینٹ کی سیٹوں پر اتفاق رائے ہو گیا اور سب نے پیار محبت سے سیٹیں مل بانٹ لیں بہت اچھا ہوا۔ 18 ویں ترمیم کر کے آئین کو 1973ء کی روح کے مطابق بحال کرنے کا سہرا بھی باندھ لیا گیا بہت اچھا ہوا۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی پابندی بھی ختم ہو گئی جو مستحسن قدم ہے۔ اس طرح اور بہت سارے اچھے کام ہیں جو سیاست دانوں نے مل بیٹھ کر کر لئے جن کا تعلق ان کی اپنی ذات سے تھا، وہ تو ہو گئے مگر عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کا کیا بنا؟
اب ذرا غور فرمائیں کہ ایک فوجی آمر نے قوم کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کرا دیا تھا ہر چند کہ میں اس آمر کی پالیسیوں سے متفق نہیں انہوں نے بھی اپنے دور میں کوئی کمی نہیں رکھی۔ قانون کو موم کی ناک بنا دیا۔ فوجی حکومتیں بھی کرپشن میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں مگر اس قوم کو دوبارہ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسانے کا سہرا بھی ہمارے محتسب لوگوں کے سر پر سجا۔
کرپشن کے خلاف تقاریر تو کی جاتی ہیں مگر یہ ہمارے نیتا آپس میں مل بیٹھ کر احتساب کا کوئی بے رحم قانون کیوں نہیں بنا لیتے۔ اس تالاب میں جتنی گندی مچھلیاں ہیں ان کو باہر کیوں پھینک نہیں دیتے اس طرح سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو جائے گا۔ میں جعلی ڈگریوں پر بھی بات نہیں کر رہا مگر کیا ان سیاست دانوں کو سیاست کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے؟ جن کا سب کچھ تو ملک سے باہر ہے۔ وہ پاکستان صرف اپنی باری پر دہاڑی لگانے آتے ہیں۔ قوم کو مزید مقروض کر کے ان کے نام پر قرضے حاصل کرتے ہیں اور پھر موجیں ہی موجیں۔ قوم کا اعتماد اب اس نظام سے اٹھ سا گیا ہے۔ صائب رائے لوگ تو پہلے ہی ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تھے۔
اب عام آدمی میں بھی مایوسی ہے شاید لوگ سمجھ چکے ہیں کہ یہ آوہ کا آوہ ہی گندہ ہے اور اب ان سے امیدیں ختم ہو چکی ہیں۔ نئی قیادت سامنے نہیں ہے بلکہ اس سسٹم میں نئی قیادت ابھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب جمہوریت ملوکیت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں عام آدمی کی بجائے سرمایہ داروں کو ٹکٹ دیتی ہیں اور پھر یہ سرمایہ دار بے دریغ پیسہ خرچ کر کے اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر وہاں پہنچ کر فلور ملیں اور شوگر ملیں لگ جاتی ہیں۔ اس طرح کی دوسری انڈسٹریز جن کی پالیسیاں وہ خود بناتے ہیں جس سے ایک طرف تو کاشتکاروں کو لوٹتے ہیں اور دوسری طرف عوام کو من مانی قیمتوں پر اشیاء ضروریات مہیا کر کے ان کی خون پسینے کی کمائی کو اپنی تجوریوں میں بند کر لیتے ہیں۔
کیا یہ نظام چلنے کے قابل رہ گیا ہے کہ جس ملک کے سربراہ وزراء اور معتبر لوگوں پر کرپشن کے سنگین الزامات ہوں کیا وہ منہ زور بیورو کریسی کو کرپشن سے روک سکتے ہیں۔ یہی حال صوبوں میں ہے کہ اوپر سے نیچے تک لوٹ بازار لگا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں بہت سخت اور اچھے منتظم ہیں مگر لگتا ہے کہ اس مرتبہ شاید انہوں نے بھی کرپٹ مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں کیونکہ اس بہتی گنگا میں ان کی اپنی ٹیم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے تو پھر تھانہ، تحصیل سے کون کرپشن ختم کرائے گا۔ میں افراد کی بات نہیں کرتا مگر چونکہ میرا تعلق گلی محلہ سے ہے اس لئے یہ بات وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ سیاست دانوں کے پاس وقت کم ہے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر لیں۔ اگر کوئی موقع آیا تو قوم اب سیاستدانوں کی بجائے عدلیہ اور فوج کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی اور سیاست دان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان کو موقع دے رکھا ہے۔ عدلیہ کا احترام کر کے اپنے آپ کو عدالتوں کے سامنے لے جائیں۔ آپس میں مل بیٹھیں قومی مسائل کے حل کے لئے مشترکہ روڈ میپ تیار کریں۔ ماضی کی غلطیوں پر قوم اور پروردگار سے معافی مانگیں اپنا سرمایہ واپس لائیں۔ ملک میں سرمایہ کاری کے لئے فضاء پیدا کریں اور ہر اچھے کام کی ابتداء اپنے سے شروع کریں قوم کو اب مفید مشوروں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ کام مشکل ہے مگر بہتر یہی ہے کہ یہ کام خود کر لیں ورنہ کوئی اور کرے گا کیونکہ قوم کو اب کسی مسیحا کا انتظار ہے ایسا نہ ہو کہ آپ کہتے ہی رہ جائیں۔
اک زندگی عمل کے لئے بھی نصیب ہو
وہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی