سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا اینکر پرسن سلیم صافی کو انٹرویو ردعمل کی نفسیات سے ہٹ کر دیکھا جانا چاہئے۔ یہ انٹرویو ان کے شخصی سانچے میں موجود اپنے منطقی اشاروں، امکانات اور چوہدری صاحب کے ذاتی نفسیاتی اجزاء کی شکل میں دلچسپی اور سنجیدگی پہ مشتمل ایک لذیز تجزیاتی تشکیل سامنے لاتا ہے۔
ان کے اس انٹرویو کی ٹائمنگ پر گفتگو عمومی رویے کے سوا اور کسی معیار کا ثبوت نہیں ہو گی، گویا آپ ’’ٹائمنگ‘‘ کی حد درجہ استعمال شدہ اصطلاح کی بنیاد پر لوگوں کے متوجہ ہونے کا یقین رکھتے ہیں ایسا نہیں ہے، سلیم صافی سےاقساط میں شائع شدہ مواد کی ’’ٹائمنگ‘‘ کیا ہے کی بجائے ان کے انٹرویو کا ایک اور پہلو شاید زیادہ حساس بیرومیٹر کے وجود کا باعث بن سکتا ہے، وہ یہ کہ چوہدری صاحب مسلم لیگ ’’ن ‘‘ کے رہبر نواز شریف سے شکایات، اعتراضات اور خدشات کے ’’مہذب بیانیہ‘‘ کے تسلسل سے وہ آہستہ آہستہ اپنے لئے کسی نوعیت کی قومی سیاسی کیمسٹری کا ماحول پیدا کرنے کے خواہاں ہیں انہیں متوقع سیاسی علیحدگی کے بعد سیاسی اخلاقیات میں متنازع اخلاقی پوزیشن کے ’’مشکوک کردار‘‘ کے بجائے ایک فطری طرز کے صاف ستھرے سیاستدان (مسٹر کلین) کے طور پر قبول کیا جائے اور وہ اپنے اس متبادل سیاسی سفر میں بالآخر اپنے لئے ’’دیانتدار سیاستدان‘‘ کا استحقاق تسلیم کر سکیں، گویا چوہدری نثار کا یہ انٹرویو اپنی ساختیاتی جبلت میں متوقع جداگانہ سیاسی راستے کے لئے اخلاقی بنیاد کی تلاش کا بحران ہے۔
چوہدری نثار علی خان کا اینکر پرسن سے تفصیلی مکالمہ ہو سکتا ہے حقائق کے منافی نہ ہو تاہم ان کے پیش کردہ یا بیان کردہ حقائق تاریخی طور پر اس اطلاق پر پورا نہیں اترتے جس سے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے یہ جبرو کراہ ایک فاصلے پر ہوتے چلے گئے یا ان کے اپنے الفاظ میں ’’انہیں مشاورت‘‘ سے باہر رکھا جانے لگا۔
مثلاً وہ ملک کے لئے ایسے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے پاکستان کی بقا کو فیصلہ کن خطرات لاحق ہیں، ان خطرات کا چوہدری صاحب اور میاں صاحب سمیت ملک کے کل پانچ افراد کو پتہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی قومی سیاسی سعی و جہد میں قومی اداروں سے ٹکرائو کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے، یہ خدانخواستہ ایک ایسی ’’تباہی‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان ہی نہیں میاں صاحب بذات خود کسی ’’المیے‘‘ سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ پہلا نکتہ تھا جسے انہوں نے چند روز قبل منعقدہ اپنی سنسنی خیز پریس کانفرنس میں بھی بے حد تہلکہ خیز پیرائے میں بیان کیا، ظاہر ہے چوہدری صاحب پاکستانی سیاست کی نہایت سینئر اور معتبر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، ان کی تشویش کے محور نے پورے ملک میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی تاہم اس اضطرابی کیفیت نے کوئی دیر پا اور مسلسل تاثر کی صورت اختیار نہیں کی نہ ہی وطن عزیز کے فعال حلقوں نے چوہدری صاحب پر ’’کون سے خطرات‘‘ کے حوالے سے کسی بند کمرے میں ملک و قوم کی نگہبانی اور محافظت کے پابند و نگران اداروں کو تیار کرنے پر کوئی زور دیا گیا، انہوں نے اس پریس کانفرنس اور پھر ’’جیو‘‘ کے ساتھ انٹرویو، دونوں جگہوں پر یہ خوفناک انکشاف کیا مگر اسے قومی افق پر موجود تشویشناک سوالوں کی پہلی صف میں بھی جگہ نہیں دلا سکے چنانچہ ان کے موقف یا خیالات کی پہلی سیڑھی پر نہ خواص نے قدم رکھا نہ عوام نے، بات آئی گئی ہو چکی ہے۔
پاکستانی عوام میں مجموعی طور پر سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا امیج ایک ذمہ دار اور باوقار شخصیت کا ہے۔ وہ عوام و خواص میں یکساں احترام و توجہ سے دیکھے اور تسلیم کئے جاتے ہیں، بہرحال کارِ حکمرانی اور ریاستی معاملات کی ظاہری سطح کے نیچے ان کی باطنی حقیقت اور عملی سچائی ہوتی ہے۔
مثلاً جب چوہدری نثار علی خاں برادر عزیز سلیم صافی کے ساتھ فوج کے موضوع پر مکالمے میں جنرل (ر) اسلم بیگ،جنرل آصف نواز مرحوم، جنرل (ر) پرویز مشرف، جنرل (ر) پاشا، جنرل (ر) راحیل شریف، جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل (ر) جہانگیر کرامت کا حوالہ دیتے اور ہر متعلقہ موقع، وقوع اور ضرورت پر ان کے سامنے اپنی حق گوئی بطور دلیل سامنے لاتے ہیں، وہ سب کچھ چوہدری نثار علی خان کے تناظر میں نہ سوالیہ نشان ہے نہ اس پہ کسی نے شکوک و شبہات کی آلودہ فضا پیدا کی ہے، دراصل یہی وہ قومی ’’مغالطہ‘‘ ہے جس کا ہم سب شکار ہیں۔ ہم اکثر اپنی تحریروں، گفتگو، تقریروں اور اپنی اپنی انفرادی یا اجتماعی مہموں میں قوم کی اجتماعی زندگی کے اصولوں اور تاریخ کو اپنے انفرادی معمولات، حالات، حادثات، معاملات یا واقعات کی رو سے بیان کرتے ہوئے نہایت سہل ترین ذہنی مرحلے میں داخل ہو کر اس قومی اجتماعی زندگی کے ان اصولوں اور تاریخ کو اپنی ذات کا قیدی بنا لیتے ہیں اور اس اجتماعی تاریخی عمل کو اپنی ذات کے ایوان سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔
فوج یا جرنیلوں کے سلسلے میں چوہدری نثار علی خان صاحب کے دلائل اور اپروچ بدقسمتی سے اسی کلیاتی ٹریجڈی کا نمونہ ہیں، قومی بحران چوہدری صاحب جیسے مقتدر اور بلند پایہ حضرات کی انفرادی حق گوئی کی نفی نہیں کرتا لیکن سچائی کی اس انفرادیت کا خود پہ اطلاق بھی نہیں کرتا، قومی بحران کا ’’اصل بحران‘‘ ان اٹھارہ منتخب وزرائے اعظم کی تاریخ کو محیط ہے جس کی یاد دہانی سابق منتخب وزیراعظم، قوم کے سامنے ایک اجتماعی تاریخی قاعدے کے طور پر سامنے لاتا اور پاکستان کے عوام سے پوچھتا ہے۔ اچھا چلو! میرے ساتھ تو ان کی نہیں بنی لیکن ماضی کے ان اٹھارہ منتخب وزرائے اعظم میں سے ان کی کس کے ساتھ بنی؟ اب یہاں ذاتی کردار سے انکار مقصد نہیں مگر کسی کا ذاتی کردار پاکستانیوں کی آئینی بالادستی، ان کے ووٹ کے تقدس اور جمہوری تسلسل کی توہین اور رستے زخموں کی اس زوال پذیر تاریخ کو فراموش کرنے یا جھٹلانے کا جواز نہیں بن سکتا۔
پاکستانی اس کا اندمال ڈھونڈھنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ اپنی قومی آئینی بالادستی، اپنے ووٹ کے تقدس اور جمہوری تسلسل کے لئے میدان میں کود پڑنے والے سابق منتخب وزیراعظم نواز شریف کو خلاف حقیقت بات کرنے کا مرتکب ٹھہرانے پر تیار نہیں ہیں، عام پاکستانی کے نزدیک بھلے نواز شریف کے ماضی کا آپ ایکسرے لے کر بیٹھ جائیں لیکن آج وہ اپنے اعترافات سمیت جو کہہ رہے ہیں جو حوالہ دے رہے ہیں، کیا وہ خلاف واقع ہے؟ اس لئے چوہدری صاحب کی کلمہ حق کی جرأت رندانہ کو سلام مگر نواز شریف کا اور قوم کا سوال وہیں رہتا ہے یعنی ’’اچھا چلو! ان کی میرے ساتھ تو نہیں بنی لیکن ان کی اٹھارہ سابق منتخب وزرائے اعظم میں سے کسی کے ساتھ بنی؟‘‘ نواز شریف قومی تاریخ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، چوہدری نثار اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں، اب یہ لہر ہر کسی کا اپنا اپنا انتخاب اور اپنا اپنا مقدر ہے۔
’’جیو‘‘ کے ساتھ چوہدری نثار علی خاں کے قسطوں میں شائع شدہ اس انٹرویو کے مزید متعدد پہلو ہیں، نواز شریف کے ضمن میں ان پر سخن طرازی جاری رہے گی، اختتامی سطور میں چوہدری صاحب کے اس جملے پر یہ بات ختم کریں گے جس میں انہوں نے کہا ہے ’’نیوز لیکس پر پرویز رشید اپنے کرتوت کی وجہ سے ذبح ہوئے!‘‘ سابق وزیر داخلہ کہ جہاندیدہ سیاسی حیثیت رکھتے ہیں، ایک قبائلی قسم کا خاندانی اثاثہ ان کی زندگی کا حسن ہے، ان سے بہتر دھرتی کے فرزندوں کی شناخت کس کو ہو سکتی ہے، انہیں معلوم ہے پاکستان کی قومی تاریخ کی المناک میت سے ابھی تک پرویز رشید کا لہو ٹپک رہا ہے، وہ بھی کوئی ایسی لکڑی کا بنا ہوا آدمی نہیں جسے کوئی بھی قدیم ترین یا جدید ترین دیمک چاٹ سکے۔ انصاف کا تقاضا ’’نیوز‘‘ لیکس کے واقعہ کو اسی قاعدے کے تحت دیکھنے کا نہیں ہے جس کی رو سے سابق وزیراعظم پوچھتے پھرتے ہیں ’’ان کی کسی منتخب وزیراعظم سے بنی؟‘‘