• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار سے بے ہنگم علیحدگی، نواز شریف وطنی سیاست کا اکلوتا محور بن چکے۔ عمران خان ایک بار پھر بن کھلے مرجھا نے کو۔ اپوزیشن کی مضبوط و مربوط پوزیشن نواز شریف نے کمال مہارت سے ہتھیا لی۔ وطن عزیز میں کچھ بھی تو اچھا کی رپورٹ نہیں۔ اقتدار اور اختیار کی ہوسِ میں باہمی تصادم، ملکی حالات تر بترہو چکے۔ ایسے موقع پر جبکہ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پنجہ آزمائی کے لئے کروٹ پر کروٹ بدل رہی ہیں، ہمارے اداروں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کروٹ پرجم جانا، کیا وطن عزیز کی بربادی نوشتہ دیوار بن چکی؟ چین میں منعقدہ5ملکی سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں دو کالعدم تنظیموں کا نام نمایاں رہنا اچنبھا ضرور کہ تنظیمیں بھارت کا دردِسر اور تحریک آزادی کشمیر میں سرگرم، چین کبھی خاطرمیں نہیں لایا۔ بھارت بغیر لفظ چبائے، لشکر طیبہ اور جیشِ محمد پر پابندی میں ملفوف ایجنڈا، تنظیموں کے ہمیشہ ’’ڈانڈے‘‘ ہمارے عسکری اداروں سے جوڑتا، ملاتا رہا۔ چین ہی نے توبڑھ چڑھ کر ناکام بنایا۔ کیا افتاد آن پڑی کہ چین نے ہلکی پھلکی ناچاقی کا مظاہرہ کر دیا۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ گرا رکھے ہیں۔ جو کچھ روہنگیا مسلمانوں پر پچھلے چند ماہ سے بیت رہی ہے، دہائیوں سے کشمیری مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اتوار کے دن وزیر اعظم جناب راجہ فاروق حیدر سے تفصیلی نشست رہی۔کم و بیش جو کچھ ہر خاص و عام کشمیری کی زبان پر، راجہ صاحب اسی مد میں ربط اللسان رہے۔ حکومت پاکستان سے شکوہ کہ ’’مقبوضہ وادی میں تسلسل کے ساتھ بھارت نے خستہ، مظلوم و مفلوک کشمیریوں پر وحشت، خباثت، شقاوت، بربریت کا اندوہناک بازار جما رکھا ہے۔ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم کو دنیا کے سامنے رکھنے میں حکومت ِ پاکستان کیوں ناکام رہی ؟ اچھی بات کہ دنیا روہنگیا مسلمانوں کے لئے ایک ہو چکی۔ کشمیریوں پر بیتے ظلم سے صرف نظر، پہلو تہی، اجاگر رکھنے میں ناکامی، نا اہلی اور کمزوری ناقابل معافی ہے۔‘‘ راجہ صاحب کی خدمت میں مودبانہ عرض کی کہ امریکہ بمع بھارت، سانحہ نائن الیون کی آڑ میں وطن ِ عزیز کو نشانے پر لے چکے ہیں۔ پاکستان بھیانک صورتحال سے دوچار، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔یقیناً پاکستان کو پہلے اپنے وجود کو برقرار رکھنا، مستحکم کرنا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے مفاد میںبھی یہی ہے۔ بحث لمبی، بحث دوسری کہ عرصے سے امریکہ چین کی ممکنہ بڑھتی طاقت کو قابو، ضبط، ضابطے میں رکھنے، روکنے کے لئے سرزمین پاک کو بطور اکھاڑہ منتخب کر چکا ہے۔ سانحہ نائن الیون محض بہانہ، پاکستان کو زیر اثر، سرنگوں، قبضہ استبداد میں رکھنے کے لئے افغانستان ٹھکانہ بن چکا۔ آخری منزل، چین کو حدود و قیود میں محدود و مقید رکھنا حرف آخر، حتمی غرض و غایت رہنی تھی۔ چین کی خیرہ کن معجزاتی ترقی نے امریکی کوششوں کو ہڑبڑا دیا۔ دوسری طرف روس کی نئی دریافت شدہ طاقت خم ٹھونک کر چین کے کندھے سے کندھا جوڑ چکی۔ پاکستان کمالِ مہارت سے اس ’’جوڑ‘‘ کے ساتھ جڑ گیا۔ پاک و چین کا راوی چین لکھنے کو تھا، کہ امریکہ ہڑبڑاہٹ میں چین چھیننے کی آخری سرتوڑ کوشش میں بے چین ہو چکا، ہمارا سکھ چین چھیننے میں ہمہ وقت مستعد ہے۔
پاکستان میں دو چیزوں نے امریکی عزائم کو خاک میں ملانا تھا، سیاسی استحکام اور مضبوط عسکری ادارے۔ بدقسمتی کہ سیاست ترنوالہ بن چکی۔ آج وطنی سیاسی نظام ابتری کا شکار، مکمل عدم استحکام نے جکڑ رکھا ہے۔ تاریخ وطن کا بدترین سیاسی تنائو، ٹکرائو، افراط و تفریط شاید ہی پہلے کبھی دیکھنے میں تھی۔ نواز شریف کو بے ڈھنگے، بے ہنگم سرسری فیصلے میں بآسانی گھر تو بھیج دیا گیا، غیر یقینی صورت حال گوڈے گوڈے جکڑ چکی۔ انتقام اور سازش کے تخمینوں نے نواز شریف کے حامیوں میں غم و غصہ عام کر رکھا ہے۔ وطن عزیز جائے بھاڑ میں، نادیدہ قوتیں اندھا دھند، اندھے انداز و فکر کو نافذ کر چکی ہیں۔ امریکہ بہادر کا مطمح نظر بھی یہی کچھ، عرصہ دراز سے وطن عزیز میں انارکی، افراتفری، نفسا نفسی، باہمی مذہبی، قومی سیاسی ٹکرائو کے بندوبست میں ہر تدبیر کر ڈالی۔ ساری تدبیریں الٹی بیٹھیں۔ عزائم میں ناکامی، نامرادی عرصہ دراز سے لب بام، آنگن میں ڈیرہ ڈالنے کو ہی تھی کہ ایسے میں چین کا ’’دخل در معقولات‘‘ اور ’’گیٹ کریش‘‘ بطور غیبی مدد پہنچا۔ پاکستان میں انارکی، افراتفری، اقتصادی بدحالی عام رکھنے کا مقصد ہی پاکستان کو چین کی دسترس سے دور رکھنا تھا۔ چین کا آناً فاناً میدان عمل میں اترنا، غیر معمولی کام رہا۔ پہلے ہلے میں بجلی کے نظام میں سب کچھ ڈال دیا، تین سالوں میں12ہزار میگاواٹ کا اضافہ تاریخ رقم کر گیا۔ اقتصادی راہداری پر دن دونی رات چوگنی محنت ثمر آور ہونے کو ہے۔ پاکستان میں جہاں امن و امان بحال ہو رہا تھا۔ وہاں اقتصادی بحالی پر تمام بین الاقوامی ادارے داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ یہ سب کچھ دشمنان وطن کا منہ چڑانے کے لئے کافی تھا۔ ذرہ برابر شبہ نہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنے پڑائو کا خاطر خواہ فائدہ برآمد کرنے میں ناکام ہو چکا تھا۔ پاکستان بھی زدوکوب کی دسترس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ بات حتمی،اقتصادی راہداری منصوبہ کی کامیابی امریکہ کی تاریخ کی بدترین شکست رہنی ہے۔ پچھلے17سالوں سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی یکسوئی نے ہی تو ایسے عزائم کو خاک میں ملائے رکھا۔ آج سارا کیا کرایا دھرے کا دھرا، دشمنان وطن اداروں میں باہمی ٹکرائو اور تنائو کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ سیاسی بالادستی، حصول اقتدار و اختیار کی چپقلش، سیاسی عدم استحکام کو آماجگاہ دے چکی۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ سیاسی قیادت قومی سلامتی کے معاملات کو طشت از بام کرنے میں نہیں ہچکچا رہی۔ ایک طرف سیاستدان آڑے ہاتھوں لینے کے لئے قومی سلامتی کو کھلواڑ بنا چکے۔ نازک موڑ پر وطن عزیز کی سلامتی کو لاحق خطرات میں بے اعتنائی ابھر کے سامنے آئی۔ سیاسی اور عسکری قیادت کی یکسوئی نے جو کچھ میدان جنگ میں حاصل کیا، نیچا دکھانے کی لڑائی میں کھو چکے۔ دوسری طرف اداروں نے امریکی تیار اسکرپٹ میں اپنا کردار نبھانے میں آسودگی ڈھونڈی۔ اداروں کے معاندانہ رویے کے بعد سیاسی قیادت نے عسکری اداروں کو شرمندہ رکھنے میں ہر وار کیا۔ آج ’’لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم‘‘ پاکستانی سیاست کی سنگلاخی یا نیرنگی کہ وطن عزیز پر حکومت بھی ن لیگ کی اور اپوزیشن لیڈر بھی اس وقت نواز شریف۔ باقی سیاسی پارٹیاں بشمول تحریک انصاف کی مثال جنرل مشرف کی ق لیگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ نادیدہ قوتوں سے لف سیاست یا پارٹیاں آج دم چھلا یا مہرے تک محدود ہو چکیں۔ عمران خان کے جلسوں کی بے رونقی اسی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک کی حکمران جماعت پوری طاقت سے اپوزیشن کے مقام پر فائز ہے۔ آنے والے دنوں کا سیاسی ناک نقشہ بھیانک ہی رہنا ہے۔ پاکستان تاریخ کے انتہائی نازک اور تکلیف دہ دوراہے پر ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ننگی جارحیت کی دھمکی، ہرگز گیدڑ بھبکی نہیں۔ پچھلے کالم میں ہی لکھا، کہ امریکہ کسی طور ’’اقتصادی راہداری‘‘ بننے نہیں دے گا۔ امریکہ کو پاک چین اقتصادی راہداری کی حربی و تزویراتی اہمیت کا اندازہ ہے۔ محتاط ترین الفاظ میں، امریکہ راہداری کو فی الحقیقت اپنے عزائم کے خلاف حربی دفاعی منصوبہ(STRATEGIC DEFENCE INITIATIVE)سمجھتا ہے۔منصوبے کو سبوتاژ کرنے میں، ہر انتہا، ہر جنگ، بلکہ ہر اسلحہ استعمال کرے گا۔ یقینی طور حکومتی اور عسکری قیادت سب کچھ خوب سمجھتی ہے۔ دوسری طرف منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا، چین کی بھی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں وطن عزیز ایک بار پھر اکھاڑہ بننے کو ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ موجودہ بحران میں امریکی عمل دخل، وابستگی اور سروکار کے نقش ِ پا ہر جگہ نقش ہیں۔ اقتدار اور اختیار کی اس کھینچا تانی میں امریکہ ممدومعاون رہا۔ بعید نہیں کہ جے آئی ٹی کو متحدہ امارات سے ملنے والی معلومات، امریکی ذرائع سے ہاتھ آئی ہوں۔
امریکہ کی ہمیشہ خواہش اور سہولت کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت، شخص واحد کی کمان میں ہو۔ بلیک میل کرنا اور زیر اثر لانا، آسان رہتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف ایک لمبی ترتیب، امریکہ ہر حال میں آسودہ حال رہا۔ ایسے میں ’’برکس اعلامیہ‘‘ میں چین کا حصہ بننا، وطنی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ پر چین کا امریکی دخل اندازی پر اضطرار سمجھ کے ہر خانے میں فٹ بیٹھتا ہے۔ باوجودیکہ اعلامیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے پاکستان پر کوئی زد پڑ رہی ہو۔ ایک دوست ملک کی طرف سے بدمعاملگی پر شکوہ جانا جائے۔ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دار بیانات سے یوں لگتا ہے،سیاسی بدمعاملگی پر اپنا حساب کتاب بے باک کرنے میں قومی سلامتی کے معاملات کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ ڈان لیکس قضیہ کی کہانی بھی یہی کچھ تھی۔ ماضی میں چین ہی تو اپنے طور، بھارت کو ایسے فورم میں غیر ضروری تنظیموں کے نام لینے میں بنفس نفیس دیوار تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ میری اپنی ناقص رائے بھی یہی، دل ہلا دینے کو کافی کہ کہیں چین نے ’’سیاسی عدم استحکام‘‘ پر امریکہ کو یار ومددگار بنانے میں اداروں کو نرم ترین انداز میں SNUBتو نہیں کیا؟ واللہ اعلم بالصواب

تازہ ترین