اقوام متحدہ کے تحت دنیا بھر میں پندرہ ستمبر کو عالمی یومِ جمہوریت منایا جارہا ہے، یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ ایسے موقع پر جب وطن عزیز میں قومی اداروں کی مضبوطی زیربحث ہے، رواں برس کے عالمی دن کا موضوع جمہوری اقدار کو مضبوط کرتے ہوئے قومی اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیناہے تاکہ انسانی حقوق کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائی جاسکے اور اداروں کے تصادم سے بھی بچا جاسکے۔ میں نے بارہا مواقعوں پر اظہارِ خیال کیا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک خالصتاًجمہوری جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے، پاکستان کو مضبوط صرف اسی صورت بنایا جاسکتا ہے جب یہاں جمہوریت کو استحکام حاصل ہو اور جمہوریت کسی خاص طبقے یا خاندان کے مفادات کیلئے نہیں بلکہ ارضِ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کی امنگوں کی ترجمان ہو۔ دورِ جدید میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو جمہوری رویوں کو اپناتی ہیں، جہاں ہر قومی ادارہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملکی ترقی کیلئے سرگرمِ عمل رہتا ہے، اس حوالے سے پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ آزادی کے ایک سال بعدہی قائداعظم کے دارِ فانی سے کوچ کر جانے کے باعث جمہوریت فوری پنپ نہ سکی،قائد اعظم نے تو گیارہ اگست سے دستورساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں واضح پالیسی بیان کردی تھی کہ نوزائیدہ مملکت کو جمہوری انداز میں چلایا جائے گالیکن عملاََ ایسا نہ ہوسکا، اسکا خمیازہ ہمیںمارشل لااور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں صرف اس بناپر بھگتنا پڑا کہ اس وقت قومی ادارے اتنے مضبوط نہ تھے کہ طالع آزماؤں کے سامنے بند باندھ سکیں۔ یہ صورت حال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ جس ملک نے بھی غیرجمہوری رویہ اپنایا وہ کامیاب نہ ہوسکا، گزشتہ صدی کی اہم ترین سپرپاورریاست سوویت یونین تمام تر مضبوط معیشت، عسکری طاقت، افرادی قوت اور وسیع رقبہ ہونے کے باوجودناکامی سے دوچار ہوکر آج جمہوریت کو اپنانے پر مجبورہوگئی ہے جبکہ جمہوری اقدار کے حامل معاشرے ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ اقوامِ متحدہ باقاعدگی سے جمہوریت کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے عالمی یومِ جمہوریت کیلئے ہرسال ایک مختلف موضوع کا اعلان کرتی ہے، اس حوالے سے سب سے اہم تقریب نیویارک میں یواین ہیڈکوارٹرز میں انٹر پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو)کے زیراہتمام منعقد کی جاتی ہے، رواں برس کے عالمی دن کی ایک اور اہم بات آئی پی یو کے تحت منظور ہونے والے یونیورسل ڈکلیئریشن فار ڈیموکریسی کی بیس سالہ سالگرہ بھی منانا ہے، ستمبر 1997ء میں عالمی اعلامیہ میںتمام جمہوریت پسند ممالک پر جمہوری اقدار پر کاربند رہنے، جمہوری حکومتوں کے استحکام اور عالمی تناظر میں جمہوریت کے مثبت کردار کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیاگیا تھا، اقوامِ متحدہ کے مطابق کرہ ارض پر موجودہ مختلف جمہوریتوں میں قدرِ مشترک تو ہوسکتی ہیں لیکن جمہوریت کسی ایک ملک یا علاقے سے منسوب نہیں، ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوام کی مرضی سے نظامِ حکومت مرتب کرے۔ میرے اپنے خیال میںبھی ایک جمہوری حکومت کی اولین ترجیح ووٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہئے اور تمام شہریوں کو سیاسی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی حقوق کی یکساں فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔ اسکے برعکس غیرجمہوری حکومتوں کی ترجیح جمہوریت دشمن ہتھکنڈے آزماتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے قومی اداروں کو کمزور کرنا ہوا کرتی ہے، پاکستان نے ماضی میںجمہوریت نہ ہونے کی بنا پرسخت عالمی دباؤ کابھی سامنا کیا ہے،کہا جاتا ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سیزفائر کیلئے پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو تاشقند میں مدعو کیا گیا تو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری پاکستانی صدر ایوب سے صرف اس وجہ پر رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ انہیں توعوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا تھا لیکن پاکستانی حکمران مطلق العنان تھا، اسی طرح افغان جنگ میں شمولیت اور خارجہ پالیسی سمیت بیشتر حکومتی فیصلے عوامی تائید سے محرومی اور قومی اداروں سے مشاورت کے بغیر عمل میں لائے گئے ۔گیارہ ستمبر کے المناک حادثے کے بعد امریکہ کی ایک فون کال پر ڈکٹیٹرکو کسی قومی ادارے کو اعتماد میں لیے بغیر ایسے فیصلے کرنے پڑ گئے جسکے اثرات آج بھی پاکستان پر پائے جاتے ہیں، مشرف کے دورِ آمریت کے دوران ماضی کی روایتی حریف سیاسی جماعتوں کے سربراہان میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے دورانِ جلاوطنی اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ پاکستان کو عالمی برادری کے شانہ بشانہ ترقی کی دوڑ میں کھڑا کرنا ہے تو نوے کی دہائی کے غیر جمہوری رویوں کو خیرباد کہنا ہوگا، یہی سوچ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کا باعث بنی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کیسے پرامن انداز میں پاکستان کے عوام نے طویل دور آمریت سے چھٹکارا پالیا، ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ڈکٹیٹر کو عوام کی منتخب پارلیمان میں مواخذہ کے خوف سے استعفیٰ دینا پڑا، عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی میں مسلم لیگ (ن)کے لانگ مارچ نے فیصلہ کُن کردار ادا کیا، پیپلزپارٹی کے دور میںایک وزیراعظم کو جب اعلیٰ عدلیہ نے معطل کیا تو جمہوری انداز میں دوسرے وزیراعظم نے منتخب ہوکر حکومتی امور سنبھال لیے ، اسی طرح ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد عام انتخابات کے نتیجے میں آئندہ حکومت کیلئے راہ ہموار کی ۔
موجودہ حکومت کے دور میںکچھ نام نہاد سیاسی عناصرنے غیرجمہوری انداز میں دارالحکومت اسلام آباد کی طرف لشکر کشی کرنے کی کوشش کی تو تمام جمہوریت پسند جماعتیں پارلیمنٹ اور قومی اداروں کے دفاع کیلئے متحد ہوگئیں، آپریشن ضربِ عضب، ردالفساد اور کراچی آپریشن میں کامیابی قومی اداروں کی مضبوطی اور عوام کے اعتماد کی بدولت ہی ممکن ہوسکی، منتخب وزیراعظم پاکستان نے از خود احتساب کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو نہ صرف خاندان سمیت تحقیقاقی ٹیم کے سامنے پیش ہوا جاتا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد کرتے ہوئے وزیراعظم فوری طور پر مسندِ اقتدار سے الگ ہوجاتے ہیں، پارلیمان میں نیا وزیراعظم خوش اسلوبی سے منتخب کرلیا جاتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نشست خالی قرار دیکر ضمنی انتخابات کا اعلان کرتا ہے،الزام تراشی کی سیاست کرنے والے جواب دیں کہ کیاملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال چارٹرڈ آف ڈیموکریسی سے قبل ملتی ہے؟ آج پاکستان میںدن بدن مضبوط ہوتے جمہوری اداروں کی موجودگی میں امریکہ ہمیں ڈومور کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہمیں عالمی یوم جمہوریت کے موقع پرحکومت اور سیاسی جماعتیںکے ساتھ ملک بھر میں جمہوری اقدار کی مضبوطی کیلئے من حیث القوم اپنے اندر جمہوری رویوں کو فروغ دینا ہوگا، میری نظر میں ہمیںہر ادارے میں میرٹ پر شفاف بھرتیوں کا عمل یقینی بنانا ہوگا جہاں ہر کوئی اپنی حدود میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دے، کوئی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، اختیارات سے تجاوز کرنے پر فوراََ قانون کی آہنی گرفت میں آجائے اور سب سے اہم بات ہر ایک کو احساسِ ذمہ داری اور جوابدہی کا شعور ہونا چاہئے ۔ انٹر پارلیمنٹری یونین نے پائیدار ترقی اہداف (ایس ڈی جیز ) کے تناظر میں دنیا بھر کی پارلیمانوںسے کہا ہے کہ وہ مستقبل کی جمہوریت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ آج کی جمہوریت اور جمہوری ادارے 2030ء میں کن تبدیلیوں کا سامنا کریں گے ، ہمیں بھی ریسرچ کرنی چاہئے کہ ایس ڈی جیز اہداف کے حصول کیلئے ہماری پارلیمنٹ اپنا موثر کردارکیسے ادا کرسکتی ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے حق رائے دہی اور فیصلہ سازی میں بہتری کیسے لائی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کا عالمی دن منانے کیلئے جب دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں مختلف تقریبات کا انعقادہورہا ہے تو ہمیں جمہوریت کا مضمون نصاب ِ تعلیم کا حصہ بنانے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اورہمارے میڈیا کوبھی اپنی خصوصی نشریات اور ٹاک شوز کے ذریعے پارلیمنٹ کے ایوان میں عوامی نمائندوں کی استحکامِ جمہوریت کیلئے کاوشوں اور مضبوط جمہوری اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہئے۔