جس ملک میں فوجی جرنیل دوران ملازمت سیاست کرتے ہوں، سول بیورو کریسی سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے حکومتوں کی تشکیل اور شکست و ریخت میں موثر کردار ادا کرتی ہو، کرکٹ کنٹرول بورڈ اور کھیلوں کے دیگر اداروں کے عہدیدار سیاسی پسند و ناپسند کی بنا پر مقرر کئے جاتے ہوں اور ان اداروں کے دفاتر میں یونین کونسلوں کی سطح کی سیاست ہوتی ہو وہاں کھلاڑیوں کو سیاست بازی سے کون روک سکتا ہے؟ کوئی مائی کا لال روکنا چاہے تو کامیاب کیسے ہو گا؟
پاکستان کرکٹ میں سیاست آج کی بات نہیں لوگ تو ماجد خان کی علیحدگی کو بھی سیاست کا شاخسانہ قرار دیا کرتے تھے۔ 1980 کے عشرے میں داخلی سیاست سے تنگ آ کر ورلڈ چمپئن عمران خان نے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن اللہ بھلا کرے جنرل ضیاء الحق مرحوم کا کہ انہوں نے پی سی سی بی کے سرپرست اعلیٰ کے طور پر عمران خان سے اپنا فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی بلکہ پورا دباؤ ڈالا اور غالباً یہ واحد دباؤ ہے جو اکل کھرے اور ضدی عمران خان نے قبول کیا اور ان کی بطور کپتان واپسی سے پاکستان 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلے کو آج تک پیپلز پارٹی تک غلط قرار نہیں دے سکی ۔ بعض لوگ کڑھتے ضرور ہیں۔
گزشتہ روز انگلینڈ میں ہونے والے ایشیا کپ کے لئے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اعلان کیا گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست اور خراب انفرادی کارکردگی کو بنیاد بنا کر شاہد آفریدی کو ڈراپ نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ماضی کے برعکس ٹیسٹ کرکٹ میں بھی کپتانی کا اعزاز بخشا گیا ہے حالانکہ عرصہ ہوا شاہد آفریدی ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ ٹیم میں یونس خان اور شعیب ملک کو شامل کر کے ایک لحاظ سے یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ان پر سیاست بازی کا الزام لگا کر غیرمعینہ پابندی اور جرمانے کرنے کا فیصلہ غلط تھا ورنہ اپیلوں کا فیصلہ آنے سے پہلے انہیں سکواڈ میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
حیرت انگیز طور پر محمد یوسف کو اس بہانے سکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کرکٹ کے لئے قیمتی اثاثہ اور ملک کا یہ نامور کھلاڑی ریٹائر نہیں ہوا بلکہ اسے پی سی سی سی بی نے خط لکھ کر ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا۔ انضمام الحق ، جاوید میاں داد، ظہیر عباس کی رائے میں بریڈمین سے بڑے اس کھلاڑی کو اسی الزام میں ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا جو یونس خان، مصباح الحق اور شعیب ملک پر لگا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں محمد یوسف کی سطح کا کوئی کھلاڑی اس وقت پاکستان میں موجود ہی نہیں۔ ہر بڑے کھلاڑی پر ایک ایساوقت آتا ہے جب وہ آؤٹ آف فارم ہوتا ہے یا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ عمران خان، جاوید میاں داد، انضمام الحق، سچن ٹنڈولکر اور کئی دوسرے ورلڈ کلاس کھلاڑی اس صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔ کسی ایک ایونٹ کی کپتانی مسلط کر کے شکست پر ریٹائرمنٹ کی فرمائش کرنا کھلاڑی سے زیادہ کھیل اور ٹیم کے ساتھ زیادتی ہے لیکن محمد یوسف کا اصل قصور خراب کارکردگی یا سیاست نہیں کہ اس میں تو یونس خان کا بھی کوئی ثانی نہیں، محمد یوسف کا نو مسلم ہونا اور سعید انور اور انضمام الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بنیاد پرست بن جانا ناقابل معافی جرم ہے۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم میں آملہ کی شکل و صورت محمدیوسف سے ملتی جلتی ہے بلکہ بعض لوگ اسے محمد یوسف کا جڑواں بھائی سمجھتے ہیں لیکن ٹیم کے کپتان اور کرکٹ کنٹرول بورڈ کے ارکان اس کی کارکردگی دیکھتے ہیں داڑھی نہیں۔ ہمارے ہاں کھلاڑی کی کارکردگی سے پہلے اس کا خاندانی پس منظر دیکھا جاتا ہے، دھڑے سے تعلق کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر ٹیم میں شامل کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ نہ تو یونس خان اور شعیب ملک پر پابندی کے وقت یہ سوچا گیا کہ ٹیم کو کتنے بڑے کھلاڑیوں سے محروم کیا جا رہا ہے اور نہ اب انہیں شامل کرتے وقت ان الزامات کو مدنظر رکھا گیا ہے جو ان عظیم کھلاڑیوں پر عائد کر کے پابندی لگائی گئی مگر اعجاز بٹ صاحب نے محمد یوسف کی عدم شمولیت کا یہ جواز پیش کرنا ضروری سمجھا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے چکا ہے۔ سبحان اللہ۔
اگر آج سے انیس بیس سال قبل کے حکمران اور پی سی سی بی کے عہدیدار بھی ریٹائرمنٹ کا بہانہ بنا کر عمران خان کی خدمات حاصل نہ کرتے ، اس عظیم کھلاڑی کو ٹیم کا حصہ نہ بناتے تو پاکستان ورلڈ کپ کبھی نہ جیت پاتا۔ ایک موقع پر ٹیم کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے وسیم اکرم کو عدالتی فیصلے کے باوجود ٹیم میں واپس لایا گیا جو مناسب فیصلہ تھا۔ اب بھی دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ محمد یوسف سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواست کر کے اس عظیم کھلاڑی کو ٹیم میں واپس لایا جائے تاکہ نوجوان کھلاڑی اس کے تجربے ،کپتانی اور اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ٹیم میں سیاست بازی کا قلع قمع کرنے کے اور کئی طریقے ہیں اور یہ زعم تو بالکل باطل ہے کہ بڑے کھلاڑیوں کے بغیر بھی ٹیم کوئی ایونٹ جیت سکتی ہے۔ شاہد خان آفریدی صرف محمد یوسف سے درخواست نہ کریں بورڈ کو ہٹ دھرمی ترک کرنے پر مجبور کریں۔ آخر ہر میدان میں ہیرو کو زیرو کرنے کی ہماری قومی پالیسی کب تک جاری رہے گی۔