سب کو اتفاق ہے کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حق اور سچ کی بات کرتے ہیں اور سُچے انسان ہیں بغیر لگی لپٹی کے اپنے ضمیر کے مطابق دل کی بات کھل کر کرتے ہیں۔ ان کی ایمانداری شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ کئی سال تک نوازشریف کی کابینہ کے ہمیشہ بہت اہم وزیر رہے ہیں مگر ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جہاں بہت سے لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر مائل ہو جاتے ہیں۔ چوہدری نثارکی نون لیگ سے وفاداری اور کمٹمنٹ بھی کسی شبے سے بالاتر ہے۔ تاہم ہر انسان کی طرح ان کی شخصیت کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہت جلد ناراض ہو جاتے ہیں اور ان میں برداشت کا مادہ بھی کافی کم ہے۔ بغیر یہ دیکھے کہ ان کے لیڈر کن بڑی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں اپنی بات کرتے رہتے ہیں۔ اگر وہ احتجاج پارٹی کے بند کمرہ اجلاسوں میں کریں جو کہ وہ کرتے رہے ہیں تو یہ جماعت کے اندر جمہوریت کے فروغ کیلئے بہت بہتر ہے مگر جب وہ اپنا سخت اختلافی نقطہ نگاہ سرعام بیان کرتے ہیں تو سوائے اس کے کہ نون لیگ کو نقصان ہو کچھ نہیں ہوتا۔ 28 جولائی جب سپریم کورٹ نے نوازشریف کو بطور وزیراعظم ایک معمولی وجہ سے نااہل قرار دے دیا سے لے کر آج تک چوہدری نثار نوازشریف اور اپنی جماعت کیلئے مشکلات ہی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے سابق وزیراعظم، ان کی بیٹی مریم اور پارٹی پالیسیوں کے بارے میں بیانات کا مقصد سوائے اس مشکل ترین مرحلے پر نوازشریف کو اذیت پہنچانے کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے روئیے سے سابق وزیر داخلہ نہ تو سیاسی طور پر کچھ حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی نون لیگ کو کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں بلکہ اس سے ان کا اپنا امیج بھی خراب ہو رہا ہے مگر اپنے مزاج کے عین مطابق انہیں ان چیزوں کی بالکل پروا نہیں ہے۔ اختلافات چاہے کتنے بھی بڑے ہوں یہ وقت تھا کہ چوہدری نثار جیسے زیرک اور سیانے رہنما نوازشریف کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ،ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا مقابلہ کرتے اور اس کی بغیر کسی تحفظات کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے تاہم سابق وزیر داخلہ نے بالکل ہی الٹ راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔
چوہدری نثار کی شہبازشریف سے دوستی اور انڈر اسٹینڈنگ بہت پرانی اور مضبوط ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ وہ نوازشریف کے سخت ناقد ہیں اور ان سے بہت بیزار ہیں وہ شہبازشریف کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی دلی خواہش ہے کہ نہ صرف نون لیگ بلکہ حکومت میں بھی چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی جگہ لے لے۔ تاہم کچھ لیگی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر داخلہ نے اس وقت جو حکمت عملی اپنائی ہے اس نے شہبازشریف کیلئے بھی کافی مشکلات کھڑی کر دی ہیں کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے سامنے ان کا کس طرح دفاع کریں۔ یقیناً سرتوڑ کوشش کی جاری ہیں کہ نوازشریف کو تاریخ کا حصہ بنا دیا جائے اور ان کا کوئی سیاسی رول نہ رہے۔ اب تک نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کیلئے اور مقدمات قائم کرنے کا مقصد صرف اور صرف نون لیگ میں مائنس ون فارمولا اپنانا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ چوہدری نثار کا اسٹیبلشمنٹ کا دفاع اور یہ کہنا کہ نوازشریف کی وزیراعظم ہائوس سے رخصتی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں بالکل کمزور دلیل ہے کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ کیا کیا گیا ہے اور کیا کیا جانے والا ہے۔ سابق وزیر داخلہ کی یہ رائے نوازشریف اور نون لیگ کے زخموں پر سوائے نمک چھڑکنے کے کچھ نہیں ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پاپولر لیڈروں کے خلاف غیر جمہوری قوتوں کی سازشیں وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتی ہیں مگر ان کا اثر دیر پا نہیں ہوتا۔ سیاست دان کو صرف سیاسی میدان میں ہی ختم کیا جاسکتا ہے سازشوں کے ذریعے یہ ممکن نہیں۔ اگر اس طرح کی ا سکیمیں کامیاب ہوتیں تو آج ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی لگنے کے 38 سال بعد بھی ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوتا مگر اب بھی سندھ کی حد تک ووٹ صرف ان کے نام پر ہی ملتا ہے اور پیپلزپارٹی ان کی سیاست کی کمائی ہی بہت بار کھا چکی ہے اور آئندہ بھی کھاتی رہے گی۔ نون لیگ میں شاید ہی کوئی چھوٹا یا بڑا رہنما ہو جو یہ کہے کہ وہ آئندہ الیکشن نوازشریف کی حمایت کے بغیر اپنے بل بوتے پر جیت جائے گا۔نون لیگ نوازشریف کا نام ہے اور ووٹ صرف اسے ہی ملے گا جس پر وہ ہاتھ رکھیں گے۔ میرے خیال میں چوہدری نثار اپنے حلقے میں جتنا چاہے مقبول ہو جائیں ان کیلئے سابق وزیراعظم کی حمایت کے بغیر اگلا الیکشن جیتنا بہت ہی مشکل ہوگا۔
باوجود اس کے کہ چوہدری نثار نے بڑی سخت باتیں کی ہیں مگر نون لیگ کے تمام رہنمائوں نے جان بوجھ کر اور پارٹی پالیسی کے تحت ان پر رد عمل سے گریز کیا ہے اور یہی بہترین حکمت عملی ہے کیونکہ اگر وہ بھی لفظوں کی اس جنگ میں کود پڑیں تو اس مشکل وقت میں پارٹی کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔ مریم نے بھی منجھا ہوا رد عمل دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ چوہدری نثار کی عزت کرتی ہیں کہ وہ ان کے والد کے ساتھی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے ایسے وقت میں ان کی ’’سیاست‘‘ کے بارے میں باتیں کیں جب وہ اکیلی حلقہ این اے 120 لاہور میں اپنی والدہ کی انتخابی مہم زورو شور سے چلا رہی ہیں، ان کے والد کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دے دیا ہے، ان کی والدہ لندن میں بلڈ کینسر کا علاج کروا رہی ہیں، خاندان کے ہر فردکے خلاف مقدمات بنا دیئے گئے ہیں اورہر طریقے سے ان کے خاندان کو زچ کرنے کی ا سکیمیں بنا ئی جارہی ہیں۔ ایسے وقت میں سیاسی مدد اور ہنمائی چاہئے نہ کہ سخت نکتہ چینی جو کہ ان کے مخالفین بھی ان پر نہیں کر رہے۔ اس ضمنی انتخاب کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کا کریڈیٹ یا ڈس کریڈیٹ مریم کو جائے گا۔ یہ کہنا کہ وہ ابھی سیاست میں نہیں ہیں اس حد تک تو درست ہو سکتا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر اس میں شامل نہیں ہوئیں مگر نہ صرف نون لیگ میں ہر کوئی بلکہ دوسرے بھی تمام لوگ جانتے ہیں کہ وہ کافی عرصےسے سیاست میں بہت سرگرم ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بھی انہوں نے حلقہ این اے 120 میں اپنے والد کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس کے علاوہ جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو بھی وہ پارٹی کی میڈیا پالیسی کو بڑی تندہی سے چلاتی رہی ہیں۔ نوازشریف نے بھی ہمیشہ مریم کو اپنے ساتھ رکھا تاکہ ان کی سیاسی گرومنگ کرسکیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اپنی بیٹی کو اپنا سیاسی جانشین بنائیں۔ چوہدری نثار کی طرح کچھ دوسرے نون لیگی بھی مریم کے اس رول کے بارے میں ناقد رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی اس کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی۔ ممکن ہے شہبازشریف بھی چاہتے ہوں کہ مریم کو وہ رول نہ دیا جائے جو کہ ان کے بڑے بھائی چاہتے ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی سرعام ایسی کوئی بات نہیں کی۔ مریم کی سفارش پر ہی کئی پارٹی رہنما پہلے بھی کابینہ میں شامل کئے گئے تھے اور جب ان کے والد وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوئے تو شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی وہ سارے لوگ شامل کر لئے گئے اور یقیناً یہ مریم کے کہنے پر ہی ہوا لہٰذا یہ کہنا کہ ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے بجا نہیں ہے۔ چوہدری نثار کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی ناراضی کا اظہار بار بار کھل کر نوازشریف کے سامنے کرتے رہتے مگر سابق وزیراعظم کی نااہلی کے بعد پبلک میں ایسی باتیں کرنے کی ٹائمنگ بالکل غلط ہے اس سے نوازشریف کی کافی سبکی ہو رہی ہے اور چوہدری نثار کو بھی کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ تاہم نون لیگ کے کچھ مخالف ان کے بیانات پر بغلیںبجا رہے ہیں۔