کوئی20برس پہلے اسلام آباد میں بنی گالہ کا غلغلہ اٹھا تھا ۔ ہم ابھی نوکری میں تھے اور سرکاری گھر بھی میسّر تھا ، مگر مستقبل کے اندیشے ہمیں بھی بنی گالہ لے گئے تھے۔ راول جھیل کے کنارے قدرتی حسن سے مالا مال اس علاقہ کو دیکھ کر ہماری بھی رال ٹپکی تھی ۔ ڈھائی لاکھ میں دوکنال قطعہ اراضی کا سودا بھی کرلیا، کہ انہیں دنوں سی ڈی اے نے اشتہار نکالا کہ یہ علاقہ نیشنل پارک کا حصّہ ہے اور یہاں کسی قسم کی تعمیرات کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہماری روایتی بزدلی آڑے آئی ، پہلی ہی فرصت میں سودا ختم کیا ، گو 20ہزار کم ملے، مگر شاداں تھے کہ بڑے نقصان سے بچ گئے ۔ کوئی چھ ماہ بعد دوبارہ ادھر سے گزر ہوا ، تو تعجّب ہوا کہ ہم نے تو صرف دوکنال کا سودا کیا تھا ، یہاں تو لوگ ایکڑوں کے حساب سے زمین خرید رہے ہیں اور عالیشان مکانات کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ ذرا ٹوہ کی ، تو عقدہ کھلا کہ یہ سب کچھ وطن عزیز کی نام نہاد ایلیٹ کر رہی ہے ۔ اور گڈ گورنس کا یہ عالم کہCDAباقاعدگی سے نوٹس بھی جاری کرتی رہی اور محلات بھی تعمیر ہوتے رہے اور پھر خلق خدا اس راز کو پا گئی کہ بنی گالہ ایک حقیقت ہے۔ ملک بھر کے شرفا نے یہ بستی کسی برتے پر بسائی ہے اور انہیں نکال باہر کرنے کی سکت کسی میں نہیں۔
اسی دوران ایک ڈویلپمنٹ یہ بھی ہوئی کہ اسی بستی میں عمران خان نے بھی کوئی300کنال پر مشتمل کٹیا تعمیر کر لی اور بنی گالہ عمران خان کے حوالے سے پہچانا جانے لگا ۔ خان صاحب نے گھر تو بنا لیا ، مگر کسی پلاننگ کے بغیر بسائی گئی اس بستی، اس کی بے ڈھب تعمیرات اور قبضہ گروپ کی کارستانیوں پر مسلسل کڑھتے رہے ۔2011کے اوائل میں پیپلز پارٹی کے ایک مقامی رہنما اور ان کے عزیزوں سے سرکاری زمین کا غیر قانونی قبضہ چھڑانے کیلئے عدالت عظمیٰ میں عرضی ڈالی جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کا حکم دیا تھا ۔ پھر اسی برس مئی میں بنی گالہ کی ماحولیاتی بربادی اور بلا نقشہ اور بلا اجازت تعمیرات سے دکھی ہو کر خان صاحب ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ سے ملتجی ہوئے کہ درختوں کی مسلسل کٹائی اور گھروں کی غلاظت راول جھیل میں جانے سے شدید قسم کے ماحولیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں، لہٰذا کچھ کیا جائے۔ جس پرCDAنے جواب دیا کہ بنی گالہ کی122عدد غیر قانونی تعمیرات میں تو عمران خان کا اپنا گھر بھی شامل ہے۔ اگر کوئی ایکشن ہوا تو موصوف کا اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا دوران سماعت پوچھا گیا کہ جب یہ غیر قانونی تعمیرات ہو رہی تھیں تو انتظامیہ کہاں تھی ، تب ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا ، جواب ملا کہ متعلقہ لوگوں نے پیسے لے کر آنکھیں بند کئے رکھیں۔ سبحان اللہ! اس سادگی پر کوئی مر کیوں نہ جائے۔ مسائل کا پہاڑ کھڑا کر کے عدلیہ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس سے نمٹے۔ اسی لئے تو بنچ کے ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ ’’ ہمارا کام عمارتیں گرانا نہیں۔‘‘ دہائی خدا کی، جب کنکریٹ کے یہ پہاڑ کھڑے کئے جا رہے تھے، تو کسی کو پلاننگ ، نقشوں اور ماحولیات کا خیال نہیں آیا ۔ اور پھر واویلا تو وہ کرے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔
جوع الارض کی وبا یوں تو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے مگر شاید وفاقی دارالحکومت ہونے کے سبب اسلام آباد میں اس کی شدّت کچھ زیادہ ہی ہے۔ کوئی57برس قبل اسلام آباد کی بنیاد پڑی ، تو منصوبہ سازوں نے شہر کے شایان شان کھلی جگہوں اور پارکوں کا اہتمام کیا تھا ۔ مارگلہ کی پہاڑیوں، شکر پڑیاں اور روال جھیل کے نواحی علاقے کو نیشنل پارک قرار دیا تھا جہاں اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشنز کے مطابق کوئی عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی مگر رولز تو احمقوں کیلئے ہوتے ہیں۔ بنی گالہ کے بعد اب وہی کہانی مارگلہ ہلز کے دامن میں واقع شاہ اللہ دتہ میں دہرائی جا رہی ہے۔ پہاڑ کاٹ کر ایکڑوں پر مشتمل فارم ہائوس تعمیر ہو رہے ہیں۔ غریب غربا بھی چند مرلے خرید کر سر چھپانے کا آسرا کر رہے ہیں۔ زمین کا اسٹیٹس مخدوش کہ اسٹامپ پیپر پر محض قبضہ منتقل ہو رہا ہے مگر لوگ رسک لے رہے ہیں کہ سب کچھ کوڑیوں کے مول مل رہا ہے۔ کل کلاں قانونی موشگافیاں شروع ہوئیں تو عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگیں گے ،ساتھ ساتھ پرائیوٹ بلڈرز بھی سرکاری زمینوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ غرض غدر کی سی کیفیت ہے اور ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک ہاتھ مارنا چاہتا ہے کہ گویا کہ اگر آج نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ رہیCDA تو اس کی حکمت عملی وہی ہے جو بنی گالہ کیلئے تھی محض اشتہارات اور اخباری بیانات پر زور ۔ البتہ اتمام حجّت کی خاطر گاہے گاہے بلڈوزر لے کر نکلتے ہیں اور کسی غریب کی کٹیا مسمار کر آتے ہیں۔
چند برس ہوئے ایک شاہ دماغ نے مارگلہ میں سرنگ کی تعمیر کا منصوبہ اس دعویٰ کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس کی تعمیر سے مارگلہ کی دوسری طرف ایک نیا اسلام آباد بسایا جا سکتا ہے جس سے اس قدر ہن برسے گا کہ پاکستان کے اندورنی، بیرونی سب قرضے اتر جائیں گے اور سرکار نے تو حد کر دی اسےCPEC کا حصّہ قرار دے دیا، انکشاف ہوا کہ سرنگ چھ رویہ سڑک پر مشتمل ہو گی۔ اس پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور سرکار کو مارگلہ کے ساتھ چھیڑچھاڑ سے منع کیا تھا اور جسٹس جواد ایس خواجہ کے اس کمنٹ کا خوب چرچا ہوا تھا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک سے ایک پتھر نکالنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی تو جناب!عدالتیں تو یہی کچھ کر سکتی ہیں۔ سخت زبان میں دوٹوک فیصلے…مگر عمل درآمد تو متعلقہ اداروں نے ہی کرنا ہوتا ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ اس حوالے سے اپنا فرض نبھانے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔