این اے 120کے ضمنی الیکشن کو نواز شریف کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل خیال کیا جارہا تھا۔ اب اُن کے حامی اس فتح کا جشن منانے میں حق بجانب ہیں۔ حقائق البتہ اس کے برعکس ہیں۔ پی ایم ایل (ن) جیت گئی، لیکن فتح کے کم ترین مارجن پر خوش ہونے کا جواز موجود نہیں ۔ پی ایم ایل (ن) نے 1985 ء کے بعد اس حلقے سے ہمیشہ بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی اور ہر مرتبہ یہ مارجن بڑھا تھا، سوائے 2013ء کے ، جب کامیابی کا مارجن کم ہوا تھا ۔ تاہم جیت کا موجودہ مارجن اُس سے بھی کم ہے ۔ تو اگر پاکستان بھر میں اپنے بہترین حلقے میں پی ایم ایل (ن) کی کارکردگی کا یہ حال ہے ، خاص طور پر جب ’’اقامہ فیکٹر ‘‘ بھی اس کے ہمراہ تھا، تو اس کا مطلب ہے کہ اسے سنجیدگی سے بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے ۔ یہ امید کہ این اے 120 سے ابھرنے والی کامیابی کی لہر اُن اداروں کو عوامی دبائو میں لے آئے گی جو نواز شریف کے تعاقب میں ہیں، بخارات بن کر اُڑ چکی ۔
این اے 120کے معرکے سے توقع کی جارہی تھی کہ اس سے مریم نواز شریف کے سیاسی کیرئیر کا دھماکہ خیز انداز میں آغا ز ہوگا۔ اگرچہ اُنھوںنے بہت اعتماد اور جذبے سے انتخابی مہم چلائی ،لیکن بمشکل حاصل ہونے والی کامیابی کے بعد لوگ سوال پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ کیا حمزہ شہباز شریف، جو کافی عرصے پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی مشینری کو استعمال کررہے تھے، اس کا م کو بہتر انداز سے سرانجام نہ دے لیتے ؟ کیا وہ زیادہ بڑی تعداد میںووٹروں کو گھروں سے باہر لانے میں کامیاب نہ رہتے ؟اپنے والد کی طرح ، حمزہ نے بھی نواز شریف کیمپ سے اتنی اجنبیت اختیار کرلی کہ انتخابی مہم کے دوران بیرون ِملک چلے گئے ۔ اگر باپ اور بیٹا ، دونوں انتخابی مہم چلاتے اور صوبائی پارٹی کا پورا وزن ان کے ساتھ ہوتا تو شاید نتائج بہت بہتر ہوتے ۔کم از کم وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ پی ایم ایل (ن) کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد قطاروں میں ہی نہ کھڑی رہ جاتی اور وقت ختم ہوجاتا۔
این اے 120کے نتائج نے اس بحث کو بھی دفن کردیا کہ کیا عام انتخابات تاخیر سے ہوں گے یا قبل ازوقت۔ اگر پی ایم ایل (ن) کو بھاری کامیابی مل جاتی تو ’’اقامہ فیکٹر ‘‘ کی اہمیت پر زور دے کر جلدی انتخابات کا میدان سجانے کی کوشش کی جاتی ۔ اب اس کی کوئی امید نہیں۔ اب نیب کے ذریعے سپریم کورٹ کے دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ سر پر عوامی حمایت کی کوئی چھتری بھی نہیں ہے ۔ شریف فیملی میں پڑنے والی دراڑبھی مزید نمایاں ہوگی ، اور اس کا دبائو بھی پی ایم ایل (ن) پر آئے گا۔ جب ساتھ چلنا مشکل دکھائی دے گا تو بہت سے رہنما پارٹی کی صفوں سے نکلتے دکھائی دیں گے۔
اس دوران سپریم کورٹ نے مختصر سی سماعت کے بعد شریفوں کی نظر ِثانی کی تمام اپیلوں کو مسترد کردیا، باوجود اس کے کہ اقامہ فیصلے کے حقائق اور قانون کی تشریح انتہائی متنازع تھے ۔ ایک احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردئیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شریف عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے تو اُن کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے ۔ حدیبیہ کیس کھلنے سے شہباز شریف بھی گرفت میں آسکتے ہیں، اور اس کیس کو کھولنے کا حکم سپریم کورٹ کے ایک جج نے دے دیا ہے ۔ درحقیقت جب موجودہ چیئرمین کی چند ماہ بعد مدت تمام ہوگی تو نیب کی کارروائی مزید جارحانہ پن اختیار کرلے گی ۔
اس وقت پی پی پی اور پی ایم ایل (ن)، دونوں ایک دوسرے سے تصادم کی راہ پر ہیں ۔ نیب کے نئے چیئرمین کی تقرری کے لئے ان کے درمیان مفاہمت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے حالات میں سپریم کورٹ قدم آگے بڑھاتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر نیب کو براہ ِراست ہدایت دے سکتی ہے ، یا اپنی مرضی سے وسط مدتی چیئرمین کی تقرری کا حکم دے سکتی ہے ، جو اس کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ دونوں کیسز میں شریفوں کو بڑھتی ہوئی تمازت کی آنچ محسوس ہونا شروع ہوجائے گی ۔ پہلے ہی پی ٹی آئی اور میڈیا میں موجود اس کے حامیوں کی طرف مطالبات سامنے آرہے ہیں کہ ریاستی اداروں، جیسا کہ نیب، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، ایف آئی اے، ایف بی آر، آئی بی اور سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان میں سپریم کورٹ کے نامزد کردہ افراد کو تعینات کیا جائے تاکہ ان اداروں کو حکمران جماعت کی حمایت کرنے سے باز رکھا جاسکے ۔
این اے 120کے الیکشن سے پہلے مریم نواز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کے والد صاحب خود پر لگے الزامات کا مقابلہ کرنے کے لئے وطن واپس آئیں گے چاہے اُنہیں گرفتاری کیوں نہ دینی پڑے ۔ اب جبکہ شریفوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوں گے کیونکہ اُنہیں انصاف کی امید نہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان کو فوری واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ درحقیقت یہ افواہ بھی گردش میں ہے کہ کسی قسم کی ڈیل کی بات بھی ہورہی ہے ۔ تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ،جو اس ڈرامے کی ہدایت کارہے ، کی طرف سے تجویز کیا جارہا ہے ۔۔۔’’ ہمارے راستے میں نہ آئو، ہمارے ساتھ بگاڑ مت پید اکرو، ہمیں بالواسطہ طور پر ملک چلانے دو، اور پھر ہم تم پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے ۔‘‘اگر یہ افواہ درست ہے تو ایسی شرائط کے ساتھ کوئی طاقت ور سیاسی جماعت بھی اقتدار میںنہیں رہ سکتی کیونکہ سیاست دانوں کو جب بھی طاقت ملے گی، وہ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے، جس کی ہمارے ہاں اجازت نہیں ۔
موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جتنی وہ کسی بھی سویلین دور میں تھی ۔ اب یہ محض اسٹیبلشمنٹ نہیں، اِیمپائر (Empire)ہے ۔ افتخار محمدچوہدری کی ہنگامہ خیز کارکردگی رکھنے والے سپریم کورٹ سے نمٹنا اور بات تھی، لیکن اب اسٹیبلشمنٹ نے مسٹر چوہدری کے توانا کیے ہوئے بازوئوں کے ساتھ اپنے بازو ملا کر نواز شریف جیسے طاقتور رہنمائوں کو بھی لائن میں لگادیا ہے ۔گویا پاکستان کی بدقسمتی اس کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ نہ تو اِمپائر ، او ر نہ ہی اس سے توانائی پانے والے تاریخ سے کچھ سیکھنے کے لئے تیار ہیں۔