انسانی تاریخ واقعات اور سانحات سے بھری ہوئی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ یادوں سے محو ہوتے چلے گئے لیکن حضرت امام حسینؓ کی اپنے خاندان کے ہمراہ شہادت ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جو صدیاں بیت جانے کے باوجود بھلایا نہیں جاسکا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ تاقیامت اس امر کی یاد دلاتا رہے گا کہ حق او ر اصولوں کی خاطر اپنی جان قربان کردینے والے عظیم انسان تاریخ میں امر ہوجایا کرتے ہیں جبکہ یزید جیسے شخص بزور طاقت حکومت پر قابض ہوجانے کے باوجوداچھے الفاظ سے یاد نہیںکیے جاتے ۔ زمانہ قدیم سے ہندوستان اور اہل عرب کے مابین تجارتی روابط کے تاریخ میں شواہد ملتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ عین انہی دنوں جب یزیدی فوج نے حضرت امام حسینؓ کا بمعہ خاندان اور ساتھیوں کے میدان کربلا میں گھیراؤ کیا تھا تو وہاں قریب سے ہندو تاجروں کا ایک قافلہ گزر رہا تھا جس میں اس وقت کے ہندوستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے برہمن راہب دت ، اسکے سات صاحبزادے اور دو ساتھی بھی شامل تھے، دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح ہندو دھرم میںبھی ظلم کے خلاف مظلوموں کی مدد کی خاص تلقین کی گئی ہے، مقدس کتاب بھاگوات پران میں درج ہے کہ اگر کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ توہین آمیز سلوک یا ظلم کرتا ہے تو چاہے وہ جتنا زیادہ مال و دولت بھگوان کی راہ میں خرچ کرڈالے، بھگوان اس سے کبھی راضی نہ ہوگا۔ کربلا کے معرکہ حق و باطل میںشریک ہونے کیلئے ہندو تجارتی قافلے میں شامل راہب دت ، اسکے سات صاحبزادوں اور دو ساتھیوں نے حضرت امام حسینؓ سے ملاقات کی،ہندو روایات کے مطابق کربلا کے میدان میں راہب دت کے ساتوں بیٹوں بوگندر سکند، راکیش شرما شاس رائے، پورو ، شیر خا، رائے پن، رام سنگھ، دھارو اور دونوں ساتھیوں نے امام حسینؓ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جبکہ راہب دت کو زندہ گرفتار کرکے واپس ہندوستان بھیج دیا گیا اور یوں راہب دت نے لاہور میں حضرت امام حسینؓ کے فلسفہ شہادت کو متعارف کرواتے ہوئے ایک نئے مکتبہ فکر حسینی برہمن کی بنیادیں رکھیں، آج حسینی برہمن سندھ، راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش ، لکھنؤ، اجمیر شریف سمیت برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقوں میں پھیل چکے ہیں جو اپنا تعلق امام حسینؓ سے جوڑتے ہیں، تقسیم برصغیر سے قبل لاہور میں بھی حسینی برہمنوں کی خاصی بڑی تعداد آباد تھی،مشہور بالی وڈ اداکار سنجے دت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک حسینی برہمن ہیں، انکے والد سنیل دت نے لاہور میں منعقدہ ایک فلاحی تقریب سے خطاب میںبھی اپنے آباؤ اجداد کی میدان کربلا میں امام حسینؓ کی حمایت میں اپنی جانیں قربان کرنے کا تذکرہ کیا تھا۔حضرت امام حسین ؓکی یاد میں ہندو برہمنوں کا یہ فرقہ محرم کے ایام میں ماتم کرتے ہوئے شہداء کربلا کی یاد مناتا ہے، دس محرم کو روزہ رکھتا ہے اور جلوس کے راستے میں پانی اور شربت کی سبیلیں لگاکر مسلمان بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے پیش کرتا ہے، حضرت امام حسینؓ سے اظہارِ یکجہتی کیلئے مردوں، عورتوں اور بچوں نے بینر اٹھا رکھے ہوتے ہیں جبکہ اس موقع پر یزید کے ظلم کے خلاف نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، سندھ کے محرم کی اپنی خاص اہمیت ہے جس میں مقامی ہندو حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا غم منانے عملی طور پر شریک ہوتے ہیں، جہاں جہاں سے تعزیہ کا گزر ہوتاہے اہلِ ہنود ادب سے سر جھکا لیتے ہیں ، ہندو خواتین اپنے بچوں کی سلامتی اورعمر درازی کیلئے انہیں تعزیے کے نیچے سے گزارتی ہیں اور مقصدِ زندگی میں کامیابی کیلئے تعزیہ اٹھانے کی منت مانگی جاتی ہے۔جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی انگریز سامراج کے خلاف جدوجہدبرصغیر کی مزاحمتی تاریخ کاایک اہم حصہ ہے، مورخین کے مطابق انہیں حضرت امام حسینؓ سے بہت زیادہ عقیدت تھی اور انہوں نے حق کی خاطر جان قربان کرنے کا سبق حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے حاصل کیا تھا، جھانسی کی رانی کے دورِ حکومت میں عاشورہ سرکاری سطح پر نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا تھا۔تحریک آزادی کے ایک نمایاں کردار مہاتما گاندھی جی کا بھی ماننا تھا کہ وہ سب سے زیادہ متاثر حضرت امام حسینؓ سے ہوئے ہیں ، گاندھی جی نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ امام حسینؓ کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے غاصب انگریز سرکار کو ہندوستان سے بے دخل کردیں گے۔تاریخ ہند کی مختلف کتابوں میں درج ہے کہ ہندوستان کے سابق راجواڑوں میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی یاد میں تقاریب کا انعقاد کیاجاتا رہا ہے۔تاریخ کربلا صدیوں سے لکھی جارہی ہے اور اس انسانیت سوز سانحہ کو دنیا کی ہر زبان میںزیرقلم لایا گیا ہے، ہندو ادیب اور شعراء بھی اس واقعہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں، شہرہ آفاق ڈرامہ نگار پریم چند کاڈرامہ ’’کربلا‘‘ حضرت امام حسینؓ کے فلسفہ شہادت کو اجاگر کرتا ہے ، اسی طرح اردو ادب کے ہندو شعرا ء رام راؤ ، مکھی داس،منشی چھنولال دلگیر،راجہ بلوان سنگھ، دیاکشن ریحان، راجہ الفت رائے،کنوردھنپت رائے ،کھنولال زار،دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، باواکرشن مغموم، کنورمہندرسنگھ بیدی سحر،کرشن بہاری، ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھرلکھنوی، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کاکلام حضرت امام حسین ؓسے دلی لگاؤ کی عکاسی کرتا ہے، یومِ عاشورہ کے موقع پر حضرت امام حسین ؓکی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے برصغیر کی مقامی زبانوں ہندی، سنسکرت، پنجابی اور کشمیری وغیرہ میںبھی نوحہ و مرثیہ کے اشعار قلمبند کیے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کسی خاص طبقے کیلئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسانیت کو اصولوں پر کاربند رہنے کا سبق دیتی ہے، دنیا میں بہت لوگ آئے اور چلے گئے لیکن زندہ انہی عظیم شخصیات کا نام رہتی دنیا تک رہتا ہے جو اپنی زندگی کسی نیک مقصد کیلئے وقف کردیتے ہیں اور وقت آنے پر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، وہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک ایسی مثال بن جاتے ہیں جن کے نقش قدم پر چلنا ہراصول پسند انسان کی خواہش ہوتی ہے۔حضرت امام حسینؓ کے خدمتِ انسانیت کے حوالے سے اقوال ہرزمانے میں ہر شخص کیلئے مشعلِ راہ ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میںاصولوں کیلئے موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کوقابلِ افسوس سمجھتا ہوں، حقیقی دوست وہ ہے جو برائی سے بچائے اور دشمن وہ ہے جو برائیوں کی ترغیب دلائے، سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جوبدلے کی توقع رکھے بغیرعطا کرے، اس قوم کوکبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی جس نے خداکوناراض کرکے مخلوق کی مرضی خریدلی۔ میری نظر میں ہمارے ارد گرد غیریقینی حالات اور بے سکونی کی ایک بڑی وجہ حضرت امام حسینؓ کے فلسفہ شہادت سے روگردانی ہے، ہم ہر سال انکی عظیم قربانی کی یا د تو منا لیتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں انکے روشن اصولوں کو نافذ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ کرسی، اختیارات ا ور مال و دولت سب آنی جانی چیز ہیں، اصل اہمیت انسان کے اعلیٰ کردار کی ہواکرتی ہے، حضرت امام حسینؓ نے اپنے خاندان سمیت شہادت قبول کرلی لیکن انسانی معاشرے کیلئے زہر قاتل نظامِ موروثیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ، ہم سب کا اصولی اتفاق ہونا چاہیے کہ با پ کے بعد اولاد کو میرٹ کے خلاف عہدہ دینے سے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ غورطلب امر ہے کہ آج مغرب اور دیگر جمہوری معاشرے ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے موروثیت کو خیرباد کہہ کر عوام کے حق خود ارادیت پر مبنی اس نظامِ حکمرانی کو رائج کررہے ہیں جس کیلئے حضرت امام حسینؓ نے عظیم قربانی دی تھی۔اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ محرم کی مجلسوں اور جلوسوں میں ہندوباشندوں کی عقیدت و احترام سے شرکت برصغیر کے برداشت ، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی پر مبنی روایتی تہذیب کا ایک ایسا شاندار نمونہ ہے جس کو جاری رکھنا علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔