تمام تر تجارتی، مذہبی ، تعلیمی ،دفاعی تعاون کے دعوئوں کے باوجود بھارت، ایران تعلقات میں بداعتمادی کو چھوتی ہوئی احتیاط بہرحال موجود ہے۔ انڈیا کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت تہران کو اچھی طرح سے یاد ہے۔انقلاب ایران کے حوالہ سے بھارت کے معاندانہ رویہ کی صدائے بازگشت بھی ابھی مفقود نہیں ہو پائی۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر خوشدلی کے اظہار کے باوجود بھارت ،ایران کے ساتھ کمفر ٹیبل نہیں۔ بھارتی فارن آفس نے جن ممالک کے ساتھ مستقبل کاروڈ میپ ڈویلپ کرنے کی غرض سے مختلف جامعات سے اعانت حاصل کر رکھی ہےان میں ایران بھی شامل ہےاور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکالرز اس سلسلے میں سائوتھ بلاک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ جون میں ایرانی قیادت بالخصوص سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے کشمیر پر بیانات کے حوالے سے بھی گہری تشویش ہے۔ اور موصوف کے گزشتہ کئی برسوں کے بیانا ت کو مجتمع کر کے ان کا خوورد بینی سےجائزہ لیا جا رہا ہے۔ فوری ایکشن کا سبب عیدالفطر کے موقع پر آیت اللہ خامنائی کا وہ بیان بنا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مسلمان جہاں بھی ظلم و بربریت کے خلاف لڑ رہے ہیں ،عالم اسلام کا فرض بنتا ہے کہ انکی مدد کو پہنچیں اور غاصبوں کے خلاف جہاد کریں۔ ‘‘ اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایران قیادت کی جانب سے آنے والا یہ کوئی پہلا بیان نہیں یہ سلسلہ تو دہائیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ 11ستمبر 1994 انہوں نے کشمیر کو اسلام اور انسانیت کا مسئلہ قرار دیا تھا۔ جسے احسن طور پر نمٹایا جانا ہی خطہ کے مفاد میں ہے۔ نومبر 2010کا منظر نامہ بھی بھارتیوں کو ازبر ہے۔ جب ایرانی حجاج کے نام پیغام میں جناب خامنائی نے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ فلسطین، افغانستان اور عراق کے مسلمانوں سے بھی اظہار یکجہتی پر زور دیا تھا۔ جس کا بھارت نے بہت برا مانا تھا، اور ایرانی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ اسکے حوالے کیا تھا۔ نومبر 2016میں سلووینیا کے صدر کے دورہ تہران کے موقع پر ایرانی قیادت کے اس بیان پر بھی بھارت نے اظہار تشویش کیا تھا کہ ’’ امریکہ کے پاس داعش کو ختم کرنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ وہ زخم کو کھلا رکھنا چاہتا ہے۔ بعینہ جیسے برطانیہ کشمیر کا زخم سئے بغیر برصغیر سے کوچ کر گیا تھا۔ ‘‘
بین الاقوامی معاملات کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات اور معاملات کو بالعموم روٹین کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اورضابطہ کے احتجاج کے بعد معاملہ داخل دفتر ۔ایسے میں سائوتھ بلاک کا یکایک برافروختہ ہونا بعید از فہم ہے۔ غالباًیہ انکی حسرت آمیز حیرت کا شاخسانہ ہے۔ کیونکہ وہ اس زمانے کا ذکر ضرور کرتے ہیں ،جب پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی تھی، اور امریکہ سمیت اکثر مغربی ممالک کی حمایت کے باوجود ایران نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک زمانے میں تو ایران کشمیریوں کی تحریک آزادی کو فلسطینیوں کی جدوجہد کے ساتھ بریکٹ کرنے پر بھی آمادہ نہ تھا ،تو آج دنیائے اسلام کو کشمیریوں کی مدد کیلئے کیونکر پکار رہا ہے۔ بھارتی سفارتی حلقوں کی اس الجھن کے جواب میں چنائی یونیورسٹی پروفیسر ڈکشٹ نے ’’دی ہندو‘‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’یہ تو ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ ہم یہ کیوں بھولتے ہیں کہ 2005میں ایران کےجوہری پروگرام کے حوالے سےIAEAمیں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے علاوہ بھارت نے بھی ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اور وہ بھی امریکہ کو خوش کرنے کے لئے تاکہ اس کے ساتھ نوکلیئر ڈیل پکی ہو سکے۔ ‘‘ سنگا پور کی فن یانگ یونیورسٹی کی پروفیسر سمیتا کے مطابق ’’ایران کے حوالے سے بھارتی حکمت عملی دوعملی کا شکار رہی ہے۔ ایسے میں جب ایران اپنی خارجہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیوں کا ڈرافٹ فائنل کر رہا ہے۔، تو بھارت کو حقائق سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں۔ چابہار کا چرچا بہت ہو چکا، مگر قرآئن بتاتے ہیں کہ اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ۔‘‘امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ کے مطابق ایران دنیائے اسلام کے فیوچر لیڈر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔، مسلم بلاک کی قیادت بتدریج کے خلا کو پر کرنے کے لئے ایران تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عالم اسلام کےرستے ناسوروں فلسطین، یمن، افغانستان ،عراق اور کشمیر پر ایرانی فوکس بلاوجہ نہیں۔وہ مسائل جو کسی زمانے میں سعودی عرب کا پسندیدہ موضوع ہوا کرتے تھے اور کوئی دو طرفہ اسٹیٹمنٹ انکے ذکر کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی، آج کل ان کاذکر شاذ ہی ہوتا ہے۔ اور یہ ذمہ داری ایران نے بلالتزام سنبھال لی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 9/11کے بعد دنیا ئے اسلام کے مسائل اور آزادی کی تحریکوں کے حوالے سے برادر عرب ملک کا رویہ بوجوہ معذرت خواہانہ ہو گیا ہے ۔ اورتب سے اپنے روایتی کردار کے برعکس لبرل اسلامک نیشن کے طور پر امیج بلڈنگ شروع کر رکھی ہے۔ جبکہ ایران گزشتہ چار دہائیوں سے امریکہ کی گڈ بکس میں نہیں اور اپنے جوہری پروگرام کے علی الرغم تہران، واشنگٹن تنائواظہر من الشمس ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گونا گوں داخلی مسائل کے باوجود ایران امریکی دبائو کے سامنے ڈٹا رہا۔ دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر رضی الدین عاقل کے نزدیک مسلکی اختلافات کے باوجود ایران کی اینٹی امریکہ حکمت عملی نے اسے عالم اسلام کے لئے بڑی حد تک قابل قبول بنا دیا ہے۔ ایران کی یہ پالیسی شفٹ بر محل ہی نہیں بروقت بھی ہے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں جبکہ افغانستان سمیت پورا مڈل ایسٹ امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔ اور سب کو معلوم ہونے کے باوجود زبانیں گنگ ہیں ایسے میں ایران سے اٹھنے والی اینٹی امریکہ صدائیں اور مرگ بر امریکہ جیسے نعرے ان کے لئے تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اب جبکہ دنیائے اسلام بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو لگتا یوں ہے کہ مسلکی اختلافات پیچھے رہ جائیں گے اور ایران مسلم ورلڈ کے مضبوط لیڈر کے طور پر ابھرے گا۔