• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دوست تنویر حسین ملک نے پچھلے محرم میں مرثیہ کی فرمائش کی تھی۔کچھ بند ان دنوں کہے تھے۔ دسویں محرم کے روز اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
مظلوم ِ دوجہاں پہ کہوں مرثیہ ، مجال
کھینچوں لبِ فرات پہ میں حاشیہ ، مجال
کیسے دکھائوں کوئی نیا زاویہ ، مجال
میرےقلم کی نوک سے وہ المیہ ، مجال
مولاعلیؓ مدد کہ تمہارے کرم پہ میں
چلنے لگا انیس کے نقشِ قدم پہ میں
*****
ہے زخم زخم لالہ و گل کا بدن تمام
پھولوں سے تتلیوں کا معطل ہوا ،کلام
سہما ہوا کھڑا ہے ہوائوں کا بھی خرام
یکساں گزررہی ہے زمانے میں غم کی شام
ہونے کو ہے زمیں پہ قیامت کا واقعہ
صبحِ ابد تلک کی ندامت کا واقعہ
*****
گھوڑے پہ ہے سوار قرینے سے وہ حسینؓ
نکلا ہے نکہتوں کے خزینے سے وہ حسینؓ
خوشبو خجل ہوجس کے پسینے سے وہ حسینؓ
کوفہ کو چل پڑاہے مدینے سے وہ حسینؓ
بڑھنے لگی ہے جانبِ کربل ستم کی شام
ذوالحج سے جا ملی ہے محرم کے غم کی شام
*****
پہنچا وہ شہسوارِ خدا کربلا میں ہے
وہ خیمہ زن سراپا دعا کر بلا میں ہے
آل نبیؐ کی حمد و ثنا کر بلا میں ہے
ہائے نسیم ِباد صبا کربلا میں ہے
ہائے وہ ریگزار وہ گرمی وہ سرخ دھوپ
شرما دیا ہےجس نے قیامت کا رنگ روپ
*****
ہے دین ِ آسمان کا گنبد لبِ فرات
پہنچا علیؓ کا صاحبِ مسند لبِ فرات
پہنچی وفا کی آخری سرحد لبِ فرات
ہے وجہ ء انبساطِ محمد لبِ فرات
قاتل یزیدی فوج کا منظر ہےسامنے
ابلیسِ بد سرشت کا لشکر ہے سامنے
*****
اِس سمت میں چراغ، اندھیرے ہیں اُس طرف
ظلمت نصیب رات کے پھیرے ہیں اُس طرف
آسیب وحشتوں کے گھنیرے اُس طرف
کہنے کو اک سپاہ کے ڈیرے ہیں اُس طرف
مثل یزید ہےکھڑی امت رسولؐ کی
آلِ رسول سے لڑی اُمت رسولؐ کی
*****
فرزند وہ علیؓ کا، نواسہ رسولؐ کا
نکلا وفا کے خیمے سے بیٹا بتول کا
خطبہ دیا کہ قصہ ہے دیں کے اصول کا
یہ مسئلہ نہیں کوئی رد و قبول کا
تفہیم بس یہی ہے کلام ِ مجید کی
بیعت حرام ہم پہ ہے ہر اک یزید کی
*****
وہ آسماں کا لال ، وہ بیٹا زمین کا
وارث وہ اہل بیت کے دینِ مبین کا
وہ کہہ رہا ہے دیکھئے سورج یقین کا
بس امتحان ہوگیا نانا کے دین کا
لہرفرات کس لئے آئی پلٹ بھی جا
تیرا نہیں معاملہ ، اے ابر ہٹ بھی جا
*****
مولا یہ کربلا کی قیامت ،میں کیا کروں
وہ شمر سے شقی کی شقاوت ، میں کیا کروں
اشکوں سےریگزار کی دعوت میں کیا کروں
روئوں کہ پیٹوں ، خود کو ملامت میں کیا کروں
حاصل یہی ہوا ہمیں علم و فنون سے
تر ہے زمین سبط ِ محمد ؐ کے خون سے
*****
کچھ شام ِکربلاکی اذیت پہ رحم کر
اولادِ فاطمہؓ کی حمیت پہ رحم کر
بچوں کی بیبیوں کی معیت پہ رحم کر
اے بے نیاز اپنی مشیت پہ رحم کر
نیزے پہ سج گیا ہے جو چہرہ حسینؓ کا
سورج بھی دیکھتا ہےسویرا حسینؓ کا
*****
میں وجہ ِکربلا تجھے گردانتا نہیں
کیسے یہ واقعہ ہوا میں جانتا نہیں
تُو نے لکھا تھا لوح پہ دل مانتا نہیں
کیسے کہوں تُو اپنوں کو پہچانتا نہیں
زمزم نکال لائی تھیں مرواپہ ایڑیاں
ہیں زین العابدین کے پائوں میں بیڑیاں
*****
وہ غم وہ بے کسی وہ لہو کا سفر وہ شام
وہ ساعتِ تماشاوہ ہ ظالم نگر وہ شام
زینب میں حوصلہ تو بہت تھا مگر وہ شام
بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام
دوزخ صفت دمشق میں جنت کی بیبیاں
ہائے برہنہ سر تھیں محمدﷺ کی بیٹیاں
*****
جو چاہتا حسینؓ تو پانی لبِ فرات
کرتا کچھ ایسی آب رسانی لبِ فرات
سیلاب بھول جاتے روانی لبِ فرات
طوفان ِ نوح کرتا کہانی لبِ فرات
پانی دکھائی دیتا افق تک نگاہ کو
لہریں اچھال دیتیں یزیدی سپاہ کو
*****
جو چاہتا حسینؓ تو سینے نچوڑ کے
ساون کے اشکبار مہینے نچوڑ کے
شرمندہ پانیوں کے پسینے نچوڑ کے
بادل برستے اپنے خزینے نچوڑ کے
میٹھے سمندروں میں بدل جاتے ریگزار
صبرِ عظیم ہے یہی اعجازِاحتیار
*****
کہتے رہے فرشتے ہمیں حکم دیجئے
جنت سے لے کے آئے ہیں یہ جام پیجئے
جنات ہاتھ باندھ کے حاضر ہیں لیجئے
افلاک نے کہا کہ اشارہ تو کیجئے
لیکن مرے حسینؓ کا مقصد کچھ اور تھا
اُس دم خیالِ سبطِ محمد کچھ اور تھا
*****
آخر خدا کے دین کا معیار تھا امام
افواجِ اہل ِ بیتؓ کا سالار تھا امام
نسلِ رسل کا صاحبِ دستار تھاامام
قربانی ء عظیم کو تیار تھا امام
پھر سجدہ ء شعور کی ساعت ہوئی طلوع
نیرے پہ ایک صبحِ قیامت ہوئی طلوع
*****
خوں سے بنا دی عرشِ معلی کی یادگار
کرب و بلا میں سایہ ء سدرہ کی یادگار
ایثارِ خانوادہ ء مولا کی یاد گار
پیغمبر ء حیات کی ، فردا کی یادگار
لکھ دی ہمیشگی کی کہانی لہو کے ساتھ
ایسے لڑا کہاں کوئی اپنے عدو کے ساتھ
*****
بجھتے ہوئے چراغ کی لو زندہ ہوگئی
محرابِ کائنات بھی پائندہ ہو گئی
یہ زندگی نکھر گئی ، تابندہ ہو گئی
ٹکرائی اس سے موت تو شرمندہ ہو گئی
ہر سانس ایک ہدیہ ءتبریک بن گیا
شبیرانقلاب کی تحریک بن گیا
*****
لیکن وہ لمحہ بھی تھا بہتر کے سامنے
جب پیاس آئی تھی علی اصغر کے سامنے
معصومیت تھی آبِ ستم گر کے سامنے
لے آیاجب حسینؓ اسے لشکر کے سامنے
ظالم یزیدیوں نے سراپا ثواب کو
حیرت سے دیکھا باغِ علی کے گلاب کو
*****
کہنے لگا زیاد کی پھر وہ سپاہ سے
اپنے لئے نہ دو مجھے کچھ آب گاہ سے
معصوم کی یہ پیاس کہے جو نگاہ سے
برداشت ہو نہیں رہی مجھ کجکلاہ سے
پھیری زباں لبوں پہ جو اُس نور عین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسینؓ نے
*****
لیکن اُدھرتھے سنگ دلی کے لعینِ وقت
وحشت سے بھر چکی تھی مکمل جبینِ وقت
وہ ظلم کہ یزید کی بیعت تھی دینِ وقت
ترکش بنی ہوئی تھی ہراک آستین ِ وقت
نکلاپھر ایک تیر کمان ِ قتال سے
ٹکرا گیا وہ آل ِمحمدؐ کے لال سے
*****
پانی جو مانگتا تھا گلا خوں سے بھر گیا
باہر تمام سر خی ء اندروں سے بھر گیا
سورج بھی سرخ رنگ کے افسوں سے بھر گیا
ہائے لہو جوبہنے لگا تو امام نے
چلو میں بھر لیا گلِ خیر الانام نے
*****
سوئے فلک اچھالا اسے اور یوں کہا
لے اے خداحسینؓ نے وعدہ نبھا دیا
تُو نےمطالبہ تھا ابراہیم سے کیا
ذبح عظیم میں ہوئی تاخیر بس ذرا
لے آج اُس کی نسل سے اپناجواب لے
اجداد کے چکا دئیے سارے حساب ، لے

تازہ ترین