• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سٹھیایا جاوید ہاشمی، گہنایا معاشرہ .....چوراہا …حسن نثار

آج سب سے پہلے جاوید ہاشمی عرف عادی جنگجو جسے ”باغی“ کہلانے کا شوق بھی ہے یعنی ”کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی“ ۔ جاوید ہاشمی ایک ایسا جنگجو ہے جسے دشمن یا حریف نہ ملے تو خود اپنے ساتھ ہی جنگ چھیڑ لیتا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جسے پوچھا جائے کہ ”آخر تم چاہتے کیا ہو؟“ تو نوری نت کی طرح لفظ چبا چبا کر کہتا ہے ”جڑیا ہویا پنڈا وکھو وکھ دیکھنا چاہناں“ یعنی اپنا جڑا ہوا جسم علیحدہ علیحدہ اعضا کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ جاوید اس بچے کی مانند ہے جسے غلیل بنانے اور پرندے مارنے کا شوق بلکہ خبط تھا۔ تنگ آ کر والدین اسے کسی بے حد مہنگے ماہرین نفسیات کے پاس لے گئے جس نے اس بچے کو اپنے کلینک میں رکھ کر اس کا علاج شروع کر دیا۔ چند ماہ کے بعد ڈاکٹر نے مریض بچے کے ماں باپ سے رابطہ کر کے انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کا بچہ ”نارمل“ ہو گیا ہے آ کر لے جائیں۔ والدین خوشی خوشی کلینک پہنچے۔ بھاری اخراجات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کا شکریہ بھی ادا کیا اور احتیاط چیک کرنے کے لئے بچے سے پوچھا (پورا مکالمہ ملاحظہ فرمایئے)
”اب تم کیا کرو گے؟“
”سکول جایا کروں گا“
”پھر؟“
”واپس آیا کروں گا؟“
”پھر؟“
”کھانا کھا کر ہوم ورک کیا کروں گا“
”پھر“
”پھر تھوڑا آرام کیا کروں گا“
”پھر؟“ ماں نے خوشی سے کانپتے ہوئے پوچھا۔
”پھر کیاٹیوٹر سے ٹیوشن پڑھا کروں گا“
”اور اس کے بعد“
”قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھوں گا“
”شاباشاور ا س کے بعد “
”اس کے بعد سیرکے لئے جایا کروں گا“
”پھر“
”سیر کے دوران مناسب سا درخت دیکھ کر کوئی اچھا سا دوشاخہ کاٹنے کے بعد اس کی غلیل بنا کر پرندے مارا کروں گا“
ماں باپ بیہوش ہو گئے۔ ماہر نفسیات سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
اپنے جاوید ہاشمی کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے ہر گیت کی تان بھی غلیل بنانے اور پرندے مارنے پر ٹوٹتی ہے۔ لڑکپن میں اور کچھ نہ ملا تو ”بنگلہ دیش نامنظور“ کی تحریک میں پیش پیش ہو لئے حالانکہ یہ ایک بچگانہ تحریک تھی کیونکہ یہاں کے مراعات یافتہ استحصالی طبقات سے جان دے کر جان چھڑانے والے بنگالیوں کو اس کی رتی برابر پرواہ نہیں تھی کہ یہاں کے لونڈے لپاٹے ان کے نوزائیدہ بنگلہ دیش کو منظور کرتے ہیں یا نہیں۔ بھٹو جیسا سیزنڈ سیاستدان سمجھتا تھا کہ بنگلہ دیش کی منظوری میں ہی بہتری ہے لیکن جاوید ہاشمی ڈٹا رہا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بنگلہ دیش ”منظور“ ہو گیا اور بالآخر اسے بھی کرنا پڑا۔ جاوید ہاشمی کی زندگی میں بہت سے ایسے ”بنگلہ دیش “ ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ”منظور “ کرنا پڑے۔ مجبوریوں میں لپٹی ہوئی یہ ”منظوریاں“ آخرکار اسے اس برین ہیمرج تک لے گئیں جس کے سبب وہ آج کل کسی قتل گاہ کی بجائے ہسپتال میں ہے اور شریف برادران اس کا ”حال“ پوچھ رہے ہیں۔ کیا واقعی ”حال “ پچھوانے کے لئے برین ہیمرج کرانا ضروری ہے؟ اور اگر ہے تو پھر تہمینہ دولتانہ کو بھی یہی نسخہ آزمانا چاہئے کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
سچ تو یہ ہے کہ عوام اور خود مریض بلکہ اس کے معالج بھی جسے برین ہیمرج سمجھ رہے ہیں وہ دراصل جاوید ہاشمی کا خود اپنے اوپر خودکش حملہ ہے یا اس پر کسی طرف سے کیا گیا قاتلانہ حملہ کہ برین ہیمرج بہانہ ہے۔
انگریزی زبان کا اک گھسا پٹا محاورہ ہے کہ ”وم میں وہی کچھ کرو جو رومن کرتے ہیں“ لیکن جاوید کوفے میں مدینے والوں کے مزاج کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی۔ سچ تو یہ ہے کہ ننگوں کے حمام میں تھری پیس سوٹ پہن کر گھومنے والا ہی ہدف ملامت ہوتا ہے۔ بے غیرتی کی منڈی میں غیرت کی دکان؟ کوٹھوں کے درمیان کسی پرہیز گار کا مکان؟ صحراؤں کے سفر میں سمندروں کا سامان؟ بے ضمیری کے طوفان میں ضمیر کی اذان؟ یہی چند ”زریں اصول“ جاوید کو سمجھ نہیں آئے اور یہ وہاں پہنچ گیا جہاں اسے بہت پہلے پہنچ جانا چاہئے تھا کہ ہماری سیاست میں موٹا دماغ اور موٹی کھال ہی کمال کی ضمانت ہے اور باقی صرف جاوید ہاشمی بچتا ہے۔
میں جاوید ہاشمی کو یونیورسٹی کے دنوں سے ہی ”کریک پاٹ“ کہتا ہوں جو لڑکپن اور جوانی میں بھی ”کریک“ ہو وہ بھلا ساٹھ برس عبور کرنے پر کیسا ہو گا جس کے بارے میں نہیں اردو زبان کہتی ہے ”سٹھیا گیا“۔
یہ تو بچپن سے ہی ”سٹھیایا “ گیا تھا لیکن بری طرح گہنائے ہوئے معاشرے میں جاوید جیسے چند ”سٹھیائے“ ہوئے لوگ بہت ضروری ہوتے ہیں!
تازہ ترین