وزیر داخلہ احسن اقبال غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے، ہوا یوں کہ وہ نواز شریف کے ساتھ عدالت کے اندر جانا چاہتے تھے جبکہ گزشتہ کئی دن سے عدالت کی طرف سے میڈیا پر خبریں آرہی تھیں کہ وزراء، ممبران اسمبلی اور دوسرے غیر ضروری لوگ عدالت نہ آئیں۔ پچھلی پیشی کے تجربے کے بعد عدالت نے یہ ضروری سمجھا کہ ایسا حکم جاری کرے۔ عزت نفس تقاضا کرتی ہے کہ خود احترامی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے، وزیر داخلہ کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ان کی فورس نے کسی عہدے سے مرعوب ہونے کی بجائے اپنا کام بلا رو رعایت انجام دیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کو بھی ممنوعہ علاقے میں جانے سے روکا۔ الٹا وہ اس بات پر برہم ہوئے اور فرمایا ’’کہ میں کٹھ پتلی وزیر نہیں ہوں‘‘ میری ماتحت فورس نے مجھے عدالت جانے سے روکا اس واویلا کے بعد انہوں نے استعفیٰ دیا نہیں مگر استعفیٰ کی دھمکی دے کر رہ گئے۔ وزراء کو ملزمان کی معیت زیبا نہیں، وزراء اپنا روزمرہ کا کام نمٹانے کی بجائے بااثر ملزمان کے روبرو رونمائی کیلئے عدالتوں میں پیش ہونا، اعلیٰ عہدے کی توہین کے ساتھ جج کو متاثر کرنے کی کوشش کے سوا کیا ہے؟ پیشی پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ جو خوش قسمتی سے پنجاب کے وزیر قانون بھی ہیں، فرما رہے تھے کہ عدالت کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ وہاں سویلین حکومت کی بجائے کسی اور کا حکم نافذ ہے۔ اس صورتحال میں انصاف کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے کیا عدالت کے احاطے کو محفوظ بنانے کیلئے رینجرز ازخود آگئی تھی؟ جبکہ احتساب عدالت کی طرف سے بار بار اعلان کیا گیا کہ غیر متعلقہ لوگ عدالت نہ آئیں بلکہ خبرنامے میں وزراء کو بطور خاص عدالت آنے سے منع کیا گیا تھا۔ احتساب عدالت کے محترم جج صاحبان نے یہ حکم گزشتہ پیشی کے تجربے کے پیش نظر جاری کیا جب نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم نے لندن سے اپنے حامیوں کو احکامات جاری کر رکھے تھے کہ وہ بھاری تعداد میں ان کے ساتھ ایئر پورٹ سے عدالت جائیں گے۔ اس کارروائی کا مقصد عدالت کو مرعوب کرنے اور اپنی طاقت دکھانے کے سوا کیا تھا۔ وہ یہ بھول گئے کہ عدالت کے پاس بھی ملکی قوانین نے ایک قوت اور طاقت عطا کر رکھی ہے اور تمام قومی ادارے پابند ہیں کہ وہ عدالت کے بلاوے پر ان کے احکامات کی تعمیل کیلئے حاضر ہوں۔ شاید وہ پھر سے اسی رعایت کے طالب ہیں جو فوج کے سابق سپہ سالار جہانگیر کرامت کے تذبذب کی وجہ سے انہیں حاصل ہوئی۔ جہانگیر کرامت نے عدالت کے احکامات کو ٹالنے کیلئے وقفہ حاصل کیا اس وقفے کے نتیجہ میں عدالت عظمیٰ پر بااثر ملزمان کے حکم سے غنڈوں نے چڑھائی کردی وہ غنڈے اسی پنجاب ہائوس میں رکھے گئے تھے جہاں میاں نوازشریف نااہل ہونے کے باوجود سرکاری خرچ پر براجمان ہیں۔ جہانگیر کرامت کی اس نیم دلی کا خمیازہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ کو بھگتنا پڑا۔ اس نیک سیرت جج کی آہ نے جہانگیر کرامت کو بھی انہی ہاتھوں رسوا کر کے نکالا اور بیچارہ صدر فاروق لغاری مفت میں مارا گیا۔ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ لہٰذا دودھ کے جلوں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی ہاتھ چھٹ کو دھونس جمانے اور ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے۔ غنڈہ گردی سے روکنے پر شکایات کے انبار لگا دئیے گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہر روز ایک نیا طعنہ، نئی گالی اور رنگ رنگ کے طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج تک اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے اس کی غیر جانبداری آپ کو ہضم نہیں۔ اس کے ایک طرف ہٹ جانے سے آپ کا پِتہ پانی ہے تو اگر اسٹیبلشمنٹ نے واقعی وہ کردار ادا کرنا شروع کر دیا جس کا آپ ان پر الزام دھرتے ہو تو پھر کیا ہوگا؟ آج کل مسلم لیگیوں کی توتکار نے بزم کو پررونق بنا رکھا ہے۔ ایک بے چاری پیپلزپارٹی ہوا کرتی تھی۔ اس کے پاس ووٹ تھا اور ناسمجھ میں آنیوالا مجہول سا نظریہ بھی، زرداری صاحب کے سنہری دور میں وہ گل کھلائے کہ بھٹو کے چاہنے والے ووٹرز عمران خان لے گیا اور اس پارٹی کا نظریہ اور بدزبانی مسلم لیگ کے حصے میں آئی۔ کیا کیا مرد معقول جن کا بھرم ان کی خاموشی میں تھا بولنے لگے تو قد کاٹھ میں بونے نکلے اور معقولیت کا بھرم کھل گیا۔ اب ایک سطری استعفیٰ کی بجائے طول حکایت پر گزران ہے۔ دیانتداری اور سچائی فرد، معاشرے اور ریاست کا بنیادی اصول ہے۔ اسی اصول پر ہر معاشرے کی بقا ہے۔ جب اس اصول سے انحراف کیا جائے تو بڑی بڑی با جبروت قوت، طاقت اور بادشاہتیں ریت کے گھروندے کی طرح بکھر جاتی ہیں۔ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابیں ایسی نشانیوں اور حکایتوں سے بھری پڑی ہیں۔ 21ویں صدی کے نئے زمانے میں دنیا بھر میں ایک معاشرہ بھی ایسا نہیں جو سچائی اور دیانتداری کے اصول کو بددیانتی اور جھوٹ سے بدل دینے کا خواہش مند ہو‘ ماسوا پاکستان کے پاک لوگوں کی سرزمین ناپاک ارادوں کی زد میں ہے۔ دنیا بھر میں یہ واحد مثال ہوگی کہ بددیانتی اور دروغ گوئی کیلئے پارلیمنٹ کے ممبران کی طرف سے قانون سازی کر کے یہ گنجائش پیدا کی جارہی ہے کہ ایک بددیانت اور دروغ گو بھی ریاست کے اہم اداروں کا سربراہ بن سکے ایسا سکہ بند مجرم بھی جس کو اعلیٰ ترین عدالت سے دروگو اور بد دیانت ہونے کی سند اعزاز حاصل ہو۔ پارلیمانی جمہوریت کو سیاسیات کی زبان میں ذمہ دار حکومت کا نام دیا گیا ہے۔ اس ذمہ دار حکومت کو پارلیمنٹ ہوش ربا غیر ذمہ داری سے چلانے کی کوشش کریگی تو خدانخواستہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ہٹ دھرمی‘ چالاکی اور فریب دہی، سچائی اور دیانتداری کے متبادل کے طور پر پیش کی جارہی ہے۔ وہ بھی جمہوریت اور عوام کے نام پر جبکہ جمہوریت کے پاس اخلاقی جواز کے سوا کوئی طاقت نہیں۔ وہ آئین میں درج اصولوں اور عوام سے کئے گئے وعدوں اور منشور میں لکھے گئے پروگرام کو پورا کرنے کی پابند ہے۔ آئین اور قانون کی پابندی کرنے کی بجائے من مانی کرنا چاہی گی تو پھر وہ جمہوریت نہیں ہوگی اور نہ ہی ریاست اس بدبو دار اور ناگوار بوجھ کو اٹھائے رکھنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ریاست کے مستقل ڈھانچے کا نام ہے۔ اس میں ہزاروں چھوٹے بڑے ادارے اور ان اداروں میں کروڑوں زندہ انسان معاون، مددگار، لیڈر اور قائد ہیں۔ ریاست کے مفادات، اسکے ڈھانچے اور ان کو درپیش ہر طرح کے خطرات سے حفاظت کرنا اسٹیبلشمنٹ کے کارندوں کی ذمہ داری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کوئی خیالی ہیولا نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے۔ جھوٹ، بد دیانتی اور فریب کی تلوار کیساتھ اس کو فتح نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیبلشمنٹ ایک پہاڑ کی طرح ہے یہ خود آگے بڑھ کہ کسی کو ٹکر نہیں مارتی لیکن جو اس کے ساتھ ٹکرا جائے اس کی کھوپڑی ٹوٹ کر بھیجا بکھر جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے جمہوری حکومتیں اس کے تعاون کی محتاج ہوتی ہیں کہ وہی قوت نافذ ہ ہے اور اسی کے دم قدم سے حکومت کی حکمرانی اور طاقت برقرار رہتی ہے۔ فوج نے پرویز مشرف کے دور سے کوئی اچھا نام نہیں کمایا البتہ اس کا عہد فوج کیلئے ایک سبق ہے کہ اقتدار کے جھنجھٹ میں نہ پڑے اور جمہوریت کو نہ صرف رستہ دیا جائے بلکہ اس کی مدد کی جائے۔ اس کو سیکھنے اور سنبھلنے کا موقع ملنا چاہیے۔۔ لیکن اگر وہ سیکھنے اور سنبھلنے کی بجائے ریاست کی ساری مشینری کے در پے ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہے گی۔
گزشتہ کچھ دنوں سے اسلام آباد کے جمہوری اداروں میں کاٹھ کی ہنڈیا چڑھائی جارہی ہے۔ ذرا سی آنچ سے ہنڈیا خود ہی جل بجھے گی تو پکوان کیا خاک پکے گا۔ پیپلز پارٹی ہر چند کہیں ہے، نہیں ہے، مسلم لیگ نواز اپنی صلیب اپنے کندھے پر اٹھائے راہ لگ چکی۔ اس کے حواری ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ باقی بچے عمران خان انہیں بڑے تحمل، دانش و بینش سے کام لینا ہے۔ ’’ورنہ دمادم آرہی ہے صدائے کن فیکون‘‘