• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ شام چینی سفیر سن و ی ڈونگ کے ساتھ گزاری۔ اس شام میں اور بھی بہت سے احباب شریک تھے ۔مجيب الرحمٰن شامی تھے ۔شعیب بن عزیز تھے حفیظ اللہ نیازی تھے ۔ سلیم بخاری اور میاں سیف الرحمٰن بھی موجود تھے ایک بلاگر بھی تھے ۔سنا ہے اِن بلاگر صاحب سے ’’اہل‘‘ صدرِ مسلم لیگ بھی خاصے متاثر ہیں اورمریم نواز بھی۔ (پاکستانی سیاست بھی ان دنوں سوشل میڈیا کی چیز بن چکی ہے ۔)جب چینی سفیر نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں زیادہ پروجیکٹس پر سرمایہ کاری کی ہے کچھ پروجیکٹس کےلئے قرض بھی دیا مگر وہ صرف دو فیصد سودپر دیا گیا ہے۔ جس کےلئے چینی حکومت نے خصوصی طور پر اجازت دی ہے تو موصوف فوراً بولے ’’مگر وہ قرض ہم آپ کو واپس کیسے کریں گے ۔قرض دینے سے پہلے آپ کو یہ سوچنا چاہئے تھا ‘‘چینی سفیر ذرا سا پریشان ہوا مگر وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔اُنہوں نے فوراً کہاکہ بہت جلدسی پیک پاکستان کو اس قابل بنا دے گا کہ صرف چین کے نہیں دنیا کے قرض چکانے کے قابل ہوجائےگا۔اور پاک چین دوستی توسمندر سے کہیں زیادہ گہری ہے، پہاڑوں سے زیادہ بلند ہے اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔یہ ایک منفرد دوستی ہے جو کتنی نسل در نسل چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ یہ وہ عظیم دوستی ہے جوکبھی زوال سے آشنا نہیں ہوسکتی۔
بہر حال اصل قصہ تو سی پیک کا ہی ہے اور چینی سفیر نے اس کا کریڈٹ نواز شریف کودیا مگرحق سچ کی بات یہی ہے کہ اس سی پیک کے پیچھے جو دماغ اور دھڑکتا ہوا دل تھا وہ اِسی چینی سفیر کا تھا جو پاکستان میں اپنے چار سال مکمل کرکے چین واپس جانے والا ہے ۔سی پیک کو کچھ بھی کہہ لیا جائے لیکن حقیقت میں تو یہ ایک راہداری ہے ایک سڑک ہے ۔ میں نے اس سڑک کے بارے میں پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ کاشغر کو گوادر سے ملانے والی اس سڑک نے ایک دنیا کو پریشان کر رکھا ہے ۔ یہ سڑک ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔اِس سڑک کے وسائل سے بین الاقوامی مسائل حل ہونے کا امکان ہے۔ یہ سڑک پاکستان کو ایک روشن اور تابناک دور میں داخل کرے گی۔یہ عام لوگوں کے حالاتِ زندگی بدلنے والی سڑک ہے ۔یہ تازہ بستیاں آباد کرنے والی سڑک ہے۔یہ سڑک کسی کو بے روزگار نہیں رہنے دے گی ۔فاقہ زدہ آنگنوں میں تبسم بکھیر دے گی ۔مفلسی کی پلکوں پر تھرتھراتے ہوئے آنسوئوں کو موتیوں میں بدل دے گی۔بقول فیض :سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی ۔چین میں بھی اس سڑک کی تعمیر کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے کہ وہاں سی پیک کے نام سے کئی اخبار نکل آئے ہیں ۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے میرا ایک بزنس مین دوست جو چین سے برطانیہ میں مختلف چیزیں امپورٹ کرتا ہے ۔کل کاشغر سے واپس آیا تو مجھے کہنے لگا۔میں کاشغرمیں جس چینی کا مہمان تھا ۔وہ مجھے ایک دن اپنے ساتھ شہر سے باہر تقریباً تیس کلو میٹر دور لے گیاکہ تمہیں ایک بہت خاص چیز دکھانی ہے ۔ وہاں ایک قطعہِ اراضی دکھا کرکہنے لگا میں نے یہ زمین خریدی ہے۔ وہ زمین دو ایکٹر سے زیادہ نہیں تھی۔وہاں کام جاری تھا چاردیواری تعمیر ہورہی تھی۔ بہت پر جوش تھا ۔بتانے لگامیں بہت بڑا ویئر ہائوس بنا رہا ہوں۔یہاں سے بیک وقت ایک سو ٹرالروں پر سامان لوڈ کیا جا سکے گا ۔میں حیران پریشان کہ شہرسے اتنی دور یہ سامان رکھنے کیلئے اسٹورز بنا رہا ہے۔ پاگل تو نہیں ہوگیا ۔ یہاں کس نے آنا ہے ۔میں نے آخر کار اُس سے کہہ دیا کہ میرے نزدیک تو یہ جگہ کاروبار کیلئے قطعاً مناسب نہیں۔
میرے خیال میں تم اپنا سرمایہ ضائع کر رہے ہو۔اس نے مجھے بازو سے پکڑا اورسڑک پر لے آیا ۔پھر جاتی ہوئی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’یہ سڑک سیدھی گوادر جارہی ہےــ‘‘۔
بے شک چین پاکستان کا تجارتی پارٹنر بن گیا ہے اور اس نے گزشتہ تین سالوں میں پاکستان میں اپنی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی ہے 20ہزارپاکستانی طلباچین کے مختلف اداروں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اورچینی زبان اور اردو زبان کے درمیان روابط میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔تہذیب و تمدن میں بھی ایک تعلق قائم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ پاکستان میں انرجی کے بحران کے خاتمے میں بھی چین نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔لاہور کی اورنج ٹرین بھی لاہور کےلئے اہل چین کا تحفہ ہے۔چینی سفیر نے شہباز شریف کی بھی بہت تعریف کی ۔ایک خاتون صحافی نے بہت کوشش کی کہ چینی سفیرسابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے نا اہل ہونے پر کوئی اظہارِ خیال کریں مگر کمال دانشمندی سے انہوں نے اسےپاکستانی کا اندرونی معاملہ قرار دیا ۔ان کا یہ رویہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کےلئے ایک پیغام بھی تھا جنہوں نے دبے لفظوں میں پاکستان کے داخلی معاملات کو موضوع گفتگو بنایا ہے ۔
عمران خان سے بھی چینی سفیر کے بہت اچھےتعلقات ہیں وہ عمران خان سے ملنے کئی بار بنی گالا جا چکے ہیں مگر اُس شام چینی سفیر نےعمران خان کا ذکر نہیں کیا ۔کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ محفل میں شریک لوگوں کی اکثریت نواز شریف کی حمایت کرنے والوں کی ہے ۔شاید وہاں میں اکیلا ایک آدمی تھا جس کے نزدیک پاکستان کے تابناک مستقبل کے لئے عمران خان کا اقتدار میں آنا نہایت ضروری ہے۔دراصل لاہور میں میڈیا کے لوگوں کی اکثریت نے ہمیشہ نوازشریف اور شہباز شریف کا ساتھ دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ شعیب بن عزیز ، عطاالحق قاسمی اور عرفان صدیقی جیسے ذہین لوگوں کاشمار ان کے مشیروں میں ہوناہے ۔

تازہ ترین