پاکستان میں میاں نواز شریف کی پارٹی ن لیگ کو اقتدار میں آئے ہوئے چار سال کا عرصہ ہو چکا ہے ان چار سال میں میاں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم رہے اور پھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے ان کو نااہل قرار دے دیا اور اب وہ اس بات کا رونا رورہے ہیں کہ ان کو نااہل کیوں قرار دیا گیا ۔ اس موضوع پر میں اتنا کہوں گا کہ میاںنواز شریف نااہلوں کو ہی نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
آپ کی حکومت کی اگر کارکردگی دیکھی جائے تو وہ زیرو ہے،پاکستان کے اندر قرصے لے کر بڑے بڑے پروجیکٹ لگانے سے ملک ترقی نہیں کرتا جن ملکوں کے لوگوں نے ان پروجیکٹ پر کام کیا انہوں نے یہاں پر مال و دولت کمائی اورپاکستان کی آنے والی نسلوں کو آپ نے مقروض کیا، یہ آپ کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے۔
آپ کی حکومت کی خارجہ پالیسی دیکھی جائے اس میں بھی آپ نااہل ہیں کیونکہ جموں و کشمیر کی آزادی پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن آپ نے کبھی بھی مسئلہ کشمیر پر لب کشائی نہیں کی بلکہ آپ نے مسلمانوں کےقاتل نریندر مودی کو سینے سے لگایا اور بھارت میں جاکر یہ پیغام دیا ہم ایک ہیں۔ میاں نواز شریف اگر ہم ایک تھے تو پھر ہم نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیوں کیا؟ آپ تو اپنے اعمال سے نظریہ پاکستان کی نفی کر رہے ہیں۔ اب اس سے زیادہ نااہلی اور کیا ہو سکتی ہے آپ وہی ہیں جس نے وزیراعظم واجپائی کو لاہور میں گلے لگایا اور اس پر احتجاج کرنے والوں کو جیلوں میں بند کیا بلکہ ان پر آپ نے تشدد کروایا، نواز شریف صاحب یہ کونسی پالیسی ہے کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے اور آپ ان کو گلے لگاتے ہیں ،آپ کو پاکستان کی عوام نے کئی بار اقتداردیا اور آپ نے ہر دور میں بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ دوستی دوستوںسےکی جاتی ہے دشمنوں سے نہیں، آپ ہر وقت پاکستانی افواج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور آپ اپنے آپ کو جمہوریت کا دعویدار کہتے ہیں۔ آپ جمہوریت کے معنی سے ناواقف ہیں اپنی خود ساختہ ن لیگ کو دیکھ لیں،یہ کوئی جمہوریت ہے کہ ایک ہی خاندان کے نااہل لوگ اقتدار سے چمٹے رہیں اس کو جمہوریت نہیں کہتے اس کو موروثی بادشاہی نظام کہتے ہیں، پاکستان کی فوج بے شمار کمزوریوں کے باوجود ملک کی سلامتی اور دفاع کے لئے پرخلوص ہے لیکن پاکستان کے سیاستدان اپنا ضمیر تک بیچنے کے لئے تیار ہیں جب سپریم کورٹ نے آپ کو نااہل قرار دیا تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیاکہ اس ملک میں منتخب وزیراعظم کو اپنی ٹرم پوری کرنے نہیں دیا جاتا اور وقت سے پہلے وزیر اعظم کو فارغ کر دیا جاتا ہے مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کی بھی مثال دی جاتی ہے اب اگر حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو کیا ذوالفقار علی بھٹو نے جب کرسی اقتدار سنبھالا تو ان کے اندر کون سی جمہوریت تھی، جمہوریت کو استعمال کرکے اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن جمہوری قدروں کو اگر نہ اپنا جائے تو وہ جمہوریت نہیں ہوتی، آپ نے جمہوریت کے نام پر الیکشن جیتا لیکن آپ نے اس پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم ممبران کے سامنے جوابدہ ہے لیکن اقتدار میں آکر آپ سب کچھ بھول جاتےہیں۔ آپ کوچاہئے کہ سیاست سے کنارہ کشی کرلیں پاکستان کے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، آپ نے پاکستان کے لئے نہ کل کچھ کیا تھا اور نہ آئندہ کرسکتےہیں۔