اسلام آباد (احمد نورانی)الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس ایپ گروپس زیادہ تر ایک سیکورٹی تجزیہ کار کے اس پیغام سے گونج رہے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلف کیس میں ایک ’’اہم گواہ‘‘ کو نادرا کی جانب سے برطرف کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری ریکارڈ مختلف کہانی بیان کرتا ہے۔ نہ صرف سرکاری ریکارڈ بلکہ برطرف ملازم سید قابوس عزیز نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی برطرفی کے بعد دائر درخواست میں اپنی ملازمت سے برخواستگی کی ایک مختلف وجہ بیان کی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگائے بغیر کہ نادرا کے پاس اسحاق ڈار کا کونسا مالی لین دین کا ریکارڈ دستیار ہوسکتا ہے۔
تجزیہ نگار نے نہ صرف قابوس عزیز کو ناصرف وزیر خزانہ کے خلاف کیس میں ایک اہم گواہ قرار دیدیابلکہ یہ اعلان بھی کردیا کہ حکومت کے انتقامی حربے اور کوششوں سے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کے ٹرائل پر اثر انداز ہونا بھی واضح ہوگیا ہے۔برطرف افسر کی حمایت کیلئے اس بنیاد پر ایک مہم بھی شروع کردی گئی ہے کہ انہیں نیب کے ساتھ اسحاق ڈار خاندان کی اہم تفصیلات شیئر کرنے پر سزا دی جارہی ہے۔سرکاری ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ17اگست کو نیب لاہور نے چیئرمین نادرا کو ایک خط 1(61) HQ /910 /31 /CIT/ NAB/LHR/421 تحریر کیا کہ اسحاق ڈار کے ایک خاندان کے رکن کا مکمل ڈیٹا بیس ریکارڈ فراہم کیا جائے جو پرانی شناختی کارڈ کے نمبر کے ذریعے ہو۔ نیب کے خط نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نادرا ایک افسر تعینات کرے جس کا عہدہ ڈپٹی ڈائریکٹر سے کم نہ ہو اور جو یہ ریکارڈ دستی طور نیب لاہور کے دفتر میں 21اگست تک حوالے کرے۔یہ ایک معمول کا معاملہ تھا اور نادرا کو ایسا ریکارڈ متعلقہ قوانین کے تحت مطالبے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر تفتیش کیلئے فراہم کرنا تھا۔ نیب کا خط موصول ہونے پر چیئرمین نے ڈیٹا بیس سیکشن کو ایک مہر بند لفافے میں مطلوبہ تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا۔
سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیئرمین نادرا نے17اگست کو نیب کو لکھ کر مطلع کیا کہ ایک اہلکار سید قابوس عزیز کو تعینات کیا گیا ہے کہ وہ مطلوبہ تاریخ پر نیب لاہور کے دفتر مطلوبہ ریکارڈ کے ہمراہ جائیں۔ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18اگست کو چیئرمین نادرا آفس نےایک مرتبہ پھرنیب لاہور آفس کو لکھا کہ تصاویر خاندانی شجرے کی تفصیلات اور اس کی تصدیق کرنے والے کی تفصیلات منسلک ہیں۔ 21اگست کو مطلوبہ ریکارڈ نیب حکام کے حوالے کردیا گیا۔موجودہ معمول اور قانونی دفعات کی موجود گی میں نادرا کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ یہ سادہ ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کرتا اور ریکارڈ لے کر جانے والے افسر کا لفافے میں موجود معلومات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
کیا وہ سربہ مہر لفافہ کھول سکتا تھا یا وہ نادرہ کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا بیس معلومات کے مندرجات کو تبدیل کرسکتا تھا؟کیا چیئرمین جو خود مطلوبہ ریکارڈ بھیج رہے تھے اپنی جانب سے متعین افسر کو ریکارڈ کی ڈلیوری کیلئے برطرف کرسکتے تھے؟جواب نفی میں ہے۔ پہلے مرحلے کے طور پر نادرا افسرایک پوسٹ آفس کے طور پر کام کررہا تھا جس کا کام نادرا کے سرکاری ریکارڈ کو نیب کے حوالے کرنا تھا۔ دوسرے مرحلے پر اسے عدالت کے سامنے مقدمے کی سماعت کے دوران پیش ہونا تھا اور حلف اٹھاکر یہ گواہی دینا تھی کہ نادرا پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت کے سامنے اسحاق ڈار کے خاندان کے جس شجرہ نصب کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق درست اور یہ کہ اس میں یہی تفصیلات نیب کے تفتیش کاروں کو فراہم کی تھی۔ یہ قانون کے تحت سادہ سا ٹرائل کا عمل ہے۔
قابوس عزیزوزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف کیس میں کس طرح سے اہم گواہ بنا اس کی وضاحت مذکورہ تجزیہ نگار ہی کرسکتا ہے۔دی نیوز نے حال ہی میں سید قابوس عزیز سے دو دن تک رابطہ کیا اور سوالات سننے کے بعد انہوں نے جواب نہ دینے کا راستہ منتخب کیا۔ قابوس کو ایک طویل عمل کے بعد 23اگست کو برطرف کیا گیا اور ایک کمیٹی کی جانب سے انکوائری کی گئی جس میں نادرا کے تین ڈائریکٹر جنرل شامل تھے۔انکوائری اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین نادرا سید مظفر علی کے خلاف ہراساں کرنے سے متعلق تھی جو خود بھی برطرف ہوچکے تھے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قابوس عزیز پر ہراساں کرنے کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔ان پر الزام تھا رکہ وہ ایک متاثرہ کو ڈپٹی چیئرمین سے مصالحت کرنے پر رضا مند کررہے تھے۔ اس الزام کو ابھی عدالت میں ثابت کرنا ہے۔
خاتون نے اپنے بیان میں حقائق تلاش کرنے والے بورڈ کے سامنے بیان کیا ہے کہ قابوس ایک سے زائد بار ان کے گھر آئے اور انہیں رضا مند کرنے کی کوشش کی کہ وہ ڈپٹی چیئرمین نادرا سےمصالحت کرلیں۔یہ پورا واقعہ پہلے ہی قومی میڈیا میں تفصیل کے ساتھ ریکارڈ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں سید قابوس عزیز اور ڈپٹی چیئرمین نادرا برطرف ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب قابوس عزیز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے درخواست دائر کی تو انہوں نے کسی ایسی مثال کا حوالہ ہی نہیں دیا جس میں اسحاق ڈار خاندان کا ریکارڈ نادرا کی جانب سے نیب لاہور کے دفتر ڈلیور کرنے کا ذکر برطرفی کی وجہ کے طور کیا گیا ہو۔
بلکہ انہوں نے واضح طور پر اپنے خلاف ایکشن کے پس منظر کے طور پر ڈپٹی چیئرمین کے مسئلے کا ذکر کیا ہو۔ قابوس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے استدعا کی کہ انہیں طویل عرصے سے دھماکایا جارا تھا کہ وہ ڈپٹی چیئرمین کو مستعفی ہونے پر راضی کریںبصورت دیگر اپنے خلاف ایکشن کیلئے تیار ہوجائیں۔ قابوس نے درخواست میں یہ بھی استدعا کی کہ صرف وہ نہیں بلکہ کچھ اور اتھارتی کے افسران بھی ہیںجن سے کہا گیا تھا کہ وہ ڈپٹی چیئرمین کو مستعفی ہونے پر رضا مند کریں یا پھر برطرفی کا سامنا کریں۔ یہ وہ بات ہے جو قابوس نے خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے اپنی برطرفی کے خلاف درخواست میں کہی ہیں۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں اسٹے آرڈر جاری کرنے سے انکار کردیا ۔
احتساب عدالت میں اسحاق ڈار کے خلاف مقدمہ شروع ہونے کے بعد معمول کے مطابق نیب نے ایک مرتبہ پھر نادرا کو لکھا اور مطلع کیا کہ رجسٹریشن اتھارٹی افسر سید قابوس عزیز کو مختصر نوٹس پر اپنا بیان ریکارڈ کروانے کیلئے اکتوبر کے مہینے میں احتساب عدالت کے سامنے پیش ہونے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔نیب کی جانب سے اس خط کے جواب میں نادرا نے 4اکتوبر کو نیب کو مطلع کیا کہ سید قابوس عزیز کو ان کی خدمات سے الگ کردیا گیا ہے اور غزالی زاہد جنرل منیجر ڈیٹا ویئر ہائوس نادرا کو اس معاملے میں نیب کی معاونت کیلئے تعینات کیا گیا ہے تاہم نادرا نے نیب کو قابوس عزیز کا مستقل پتہ اور رابطے کی تفصیلات فراہم کیں تاکہ اگر ضرورت ہو تو نیب ان سے رابطہ کرسکے۔یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس پوری مہم میںیہ پتہ چلتا ہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف کیس میں ’’ ایک اہم گواہ‘‘ کا معاملہ ختم ہوگیا۔
قابوس عزیز کا ریکارڈ پر کوئی بیان نہیں ہے جس پر انہوں نے اپنی برطرفی کی یہ وجہ بیان کی ہو کہ انہیں نیب کو لفافہ ڈلیور کرنے کی بنیاد پر برطرف کیا گیا تھا۔ان کا واحد ریکارڈ پر بیان یہ ہے کہ جو انہوں نے اپنی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے بیان کیا ہے۔ بظاہر کچھ دیگر کردار جو ٹرائل پروسیس کے حوالے سے ہونے والی تمام پیشرفت کی لمحہ بہ لمحہ معلومات رکھتے ہیں،سید قابوس عزیز کے نام کو غلط استعمال کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔