اکیس ستمبر کو وفاقی وزیر برائے سرحدی علاقہ جات (سیفرون)، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، جو پیہم مسائل کا شکار ہیں، کے بارے میں وضع کی گئی اصلاحات کا نفاذ اگلے دس روز میں عمل میں آجائے گا۔ ان اصلاحات، جن کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جارہا تھا، میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے قانون ساز پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے تھے، چنانچہ وفاقی وزیر، عبدالقادر بلوچ نے اسمبلی کو یقین دہانی کرائی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس سلسلے میں بہت جلد پالیسی بیان دینگے۔
وزیراعظم نواز شریف کے معزول کئے جانے کے بعد منتخب ہونے والے وزیراعظم عباسی، جو امورِ حکومت سیکھنے کے مراحل میں ہیں، نے ابھی تک فاٹا پر پالیسی بیان نہیں دیا ہے۔ یہ تاخیر فاٹا اصلاحات لانے کے حکومتی عزم کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرے گی کیونکہ اس کارروائی پر پہلے ہی دوسال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے ذریعے فاٹا اصلاحات متعارف کرانے کے عمل میں پیش رفت ہو چکی، لیکن اس پر سیاسی اتفاق رائے ہونا ابھی باقی ہے۔ اس کی وجہ پی ایم ایل (ن) کے اتحادیوں، مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی (ف) اور محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی طرف سے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کی مخالفت ہے۔ چنانچہ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اُن اصلاحات کو متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا جائے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے بڑی حد تک قابلِ قبول اور کم متنازع ہو۔
قبائلی علاقوں کی مستقبل کی حیثیت کا تعین کرنے کیلئے ریفرنڈم کے ذریعے فاٹا کے عوام سے رائے لینے سے حکومت کے انکار نے بھی جمعیت علمائے اسلام (فضل) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت کو برہم کردیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمان کا فاٹا میں اسٹیک زیادہ ہے کیونکہ یہاں اُن کی جماعت کی حمایت کے مضبوط حلقے موجود ہیں، چنانچہ مولانا کی طرف سے اس معاملے پر محمود اچکزئی کی نسبت زیادہ بیانات سنائی دیتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے اپنے ان دونوں مضبوط اتحادیوں کو ساتھ لے کر فاٹا اصلاحات کے عمل کوآگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن اب تک کامیاب نہیں ہوئی۔ حکومت فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی تاریخی اہمیت کو سمجھتی ہے کیونکہ ان قبائلی علاقوں میں شاذ و نادر ہی کبھی اصلاحات لائی گئی ہیں۔ درحقیقت فاٹا کو نظر انداز کرنے سے پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ملک ابھی تک افغان سرحدکے قریبی علاقوں کو غیر ترقی یافتہ رکھنے اور نظر انداز کرنے کی قیمت چکا رہا ہے۔
حکومت اصلاحات وضع کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کرتی رہی ہے۔ ان میں سے ایک، جس کا عنوان ’’قبائلی علاقہ جات رواج بل 2017‘‘ تھا، کو مئی میں اسمبلی میں پیش کیا گیا لیکن اتفاق ِر ا ئے کے فقدان کی وجہ سے اسے واپس لینا پڑا۔ اسے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے مضبوط اتحادیوں،جمعیت علمائے اسلام (فضل) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخالفت کے بعد ابتدائی طور پر اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے مذکورہ بل کی جگہ ایک اور بل پیش کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر)کو ختم کیا جائے اور اعلیٰ عدلیہ کی عملداری کو فاٹا تک وسعت دی جائے۔ ’’رواج ایکٹ ‘‘ اس لئے متنازع ہو گیا کیونکہ ناقدین نے اسے ایف سی آر کا تسلسل، اورفاٹا کے عوام کے حقوق، جو بھی اُنہیں میسر ہیں، سلب کرلینے کی کوشش قرار دیا تھا۔ قانون سازی کی ایک اور تجویز آئینی بل 2017تھا جس کے ذریعے، جب فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوجاتا، صوبائی اسمبلی میں فاٹا کیلئے نشستیں تخلیق کی جانی تھیں۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 106میں ترمیم کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 124سے بڑھا کر 147 کرنی تھی تاکہ 18جنرل سیٹیں(چار خواتین کیلئے اور ایک اقلیتی برادری کے لئے) فاٹا کو دی جاسکیں۔
دیگر مجوزہ اصلاحات کے ذریعے فاٹا میں لیویز فورس کو پولیس فورس میں تبدیل کرنے کے علاوہ اصلاحات کے عمل کی نگرانی کرنے کیلئے عارضی طور پر ایک چیف آپریٹنگ آفیسر کو تعینات کرنا تھا۔ مخصوص حلقوں نے اس پر تشویش ظاہر کی کہ کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر کو اس عہدے پر تعینات کردیا جائے گااور یہ عمل خیبرپختونخوا کے گورنر، جو صدر ِ پاکستان کے نمائندے او ر فاٹا میں سب سے بااختیارشخصیت ہیں، کے اختیارات سلب کرلے گا۔ دیگر اصلاحات کی طرح اس عہدے کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی گئی، چنانچہ اصلاحات کا عمل التوا کا شکار رہا۔ تنازع پیدا کرنے والا ایک اور ایشو فاٹا میں اعلیٰ عدلیہ کی عملداری کو دی جانے والی وسعت تھی۔ پہلے بل میں قبائلی علاقوں پر پاکستان کا مروجہ قانون نافذ کرنے کیلئے فاٹا کو سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کی عملداری میںدینے کی تجویز پیش کی گئی۔ بعد میں فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا میں پشاور ہائی کورٹ کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کو وسعت دی جائے۔ اس تبدیلی کو اسٹیک ہولڈرز نے منفی انداز میں لیا۔ اس کی ایک وجہ اسلام آبادہائی کورٹ کا پشاور ہائی کورٹ کے مقابلے میں فاٹا سے زمینی فاصلہ تھا۔ اگر قبائلی علاقوں کے افراد کو انصاف حاصل کرنے کیلئے اسلام آباد آنا پڑے تو مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے، جبکہ اُن کی پشاور ہائی کورٹ تک رسائی نسبتاً آسان اور کم خرچ ہے۔
بہت سے افراد نے اسے وفاقی حکومت کی طرف سے فاٹا کو بتدریج خیبرپختونخوا کی اتھارٹی میں دینے کی بجائے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش قرار دیا۔ ستم ظریفی کہہ لیجئے، سرتاج عزیز کی قیادت میں کام کرنے والی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے جنوری 2017 ء میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا اعلان کیالیکن وفاقی حکومت خیبرپختونخواکی صوبائی حکومت کو فاٹا کی قسمت کے فیصلے میں شامل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان تحریک ِ انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت فاٹا اصلاحات کے نفاذ پر زور دے رہی ہے، اس ضمن میں صوبائی اسمبلی نے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے لیکن وفاقی دارالحکومت میں اس کی آواز نہیں سنی جارہی۔ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے 2015ء میں بیک وقت سیاسی، انتظامی، عدالتی اور سیکورٹی اصلاحات کے ساتھ ساتھ بھرپور تعمیراتی اور بحالی کے پروگرام کی تجویز پیش کی تھی تاکہ فاٹا کو پانچ سال کے اندر اندر خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کیلئے تیار کیا جاسکے۔ 2مارچ 2017ء کو وفاقی کابینہ نے سفارشات منظور کیں جن میں ایف سی آر کے خاتمے اور فاٹا کو خیبر پختونخوامیں شامل کرنے کی اہم تجاویز بھی شامل تھیں۔ ایک اہم سفارش این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کو تین فیصد حصہ دینے کی تجویز تھی۔ اعلان کیا گیا کہ فاٹا کو دس سال تک ایک سوبلین روپے سالانہ ملتے رہیں گے تاکہ وہاں تعمیر و ترقی کے عمل کو تیز کرکے اسے خیبرپختونخوا اور باقی ملک کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاسکے۔ تاہم فاٹا کو فنڈز فراہم کرنے کیلئے صوبے این ایف سی ایوار ڈ میں اپنا حصہ کم کرنے کیلئے راضی نہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس تاحال وسائل کی فراہمی کاکوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ضروری وسائل کے بغیر فاٹا کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی طویل جدوجہد بار آور ثابت نہیں ہوگی۔