بھرے مجمع میں ‘ پولیس اہلکاروں کی آنکھوں کے عین سامنے ‘ ایک رواں دواں سڑک کے بیچوں بیچ‘ شاعر مشرق کے شہر میں‘ جس بے دردی کے ساتھ دو بھائیوں کو ڈنڈے مارمار کر قتل کردیا گیا ‘ اس پہ کچھ لکھتے ہوئے بھی دل برگ خزاں رسید ہ کی طرح لرز رہا ہے۔ لغت عاجز ہے کہ اس فعل کو کیا نام دیا جائے۔ درندگی ‘ شقاوت‘ بہیمیت‘ حیوانیت‘ سنگدلی ‘ سفاکی جیسے الفاظ اس فعل کی سنگینی کے سامنے بالکل بونے لگتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ توبہت دور کی بات ہے‘ کسی نام نہاد انسانی معاشرے میں بھی اس انداز کی انسان کشی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی آزار پسند فلم ہدایت کار‘ کسی فلم میں بھی اس طرح کا منظر نہیں فلماسکتا۔
مجھے حیرت ہورہی ہے کہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے تھے جو دائرے بنائے‘ دل لہو کردینے والے اس خونیں منظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔ کیا وہ پتھر کی بنی مورتیاں تھیں کی کسی کے دل میں ارتعاش پیدا نہ ہوا‘ کسی کے سینے میں دردنے انگڑائی نہ لی‘ کسی کو خوف خدا کا احساس نہ ہوا۔ کیسے لوگ تھے یہ کہ دو انسانوں کو درندوں کے ستم کا نشانہ بنتے دیکھتے رہے اور کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر ظالموں کی کلائی پکڑنے کی کوشش نہ کی؟ اور پولیس کے وہ اہلکار کس گروہ قاتلاں کے تعلقدار تھے کہ وردیاں پہنے ‘ سروں پر ٹوپیاں سجائے‘ اپنے قمیضوں کی پشت پر "POLICE" کے مخطوطے سجائے‘ ہتھیار لئے چپ چاپ کھڑے دونوجوانوں کو ڈنڈوں کا نشانہ بنتے ‘ لہو میں لت پت ہوتے‘ تڑپتے ‘ بلکتے اور چیختے دیکھتے رہے اور ان کے دلوں میں درد کی کسک اٹھی نہ اُنہیں خیال آیا کہ اُن کی بنیادی ذمہ داری کیا ہے اور انہیں کس بات کی تنخواہ ملتی ہے؟ میں نے دیکھا ہجوم میں بچے بھی تھے‘ جوان بھی ‘ ادھیڑ عمر لوگ بھی ‘ باریش افراد بھی‘ پولیس اہلکار بھی اور سب تماش بینوں کی طرح ایک ایسے منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے جو گئے زمانوں کے سیاہ فام افریقی وحشی بھی دیکھیں تو ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ دونوجوان جو برہنہ ہوچکے تھے‘ زمین پرتڑپ رہے تھے‘ دنڈے مارنے والا ایک وحشی تھک جاتا تو دوسرا اُس کی جگہ لے لیتا‘ دوسرا تھک جاتا تو تیسرا اپنی مردانگی آزمانے آجاتا‘یہاں تک کہ وہ دم توڑگئے لیکن درندگی کو تب بھی سکون نہ ملا۔ ان کے ادھڑے ہوئے خون آلود جسم ایک کھمبے کے ساتھ ٹانگ دیئے گئے۔
یہ سب کچھ میرے‘ بلکہ ہم سب کے دوست ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کے زیر تحکم علاقے میں ہوا۔ ذوالفقار کا شمار اُن پولیس افسران میں ہوتا ہے جو محکمے کی دستار اور وقار کہلاتے ہیں۔ گوجرانوالہ رینج کو نامی گرامی غنڈوں ‘ اغوا کاروں اور سفاک مجرموں سے پاک کرنے میں انہوں نے یادگار کردار ادا کیا۔ اپنے ماتحت عملے کی ہمہ پہلو تربیت اور اصلاح کے لئے وہ مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی امتیاز ہے کہ وہ کسی بدعنوان‘ بے ہنر اور نااہل پولیس افسر کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔ اُن کی کاوشوں کے طفیل ”گوجرانوالہ ماڈل“ کی اصطلاح ‘ محکمہ پولیس کے لئے ایک روشن نظیر یا علامت کے طو رپر استعمال کی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس معاملے کا کامل پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ جائزہ لیں گے اور ظالم ‘ چاہے وہ جو بھی ہیں‘ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔
کہانی کا یہ پہلو میڈیا میں سامنے آیا کہ اس وقوعہ سے ذرا قبل ایک واردات ہوئی جس میں بلال نامی شخص پستول کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ دو افراد زخمی ہوئے۔ ڈنڈوں سے ہلاک کردیئے جانے والے دونوں نوجوانوں کا تعلق اس واردات سے جوڑدیاگیا اور وہ مقتول پارٹی کے مشتعل گروہ کا نشانہ بن گئے۔
پندرہ اور انیس سالہ مغیث او رمنیب نویں ا ور گیارہوں جماعت کے طالب علم تھے۔ چھوٹا بھائی حافظ قرآن بھی تھا۔ اُن کا یا اُن کے خاندان کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں۔ اُن کے والد علاقے کی نیک نام شخصیت ہیں۔ اس کے باوجود اگر مان بھی لیا جائے کہ دوکم سن نوجوان کہیں ڈاکہ ڈالنے گئے تھے یا انہوں نے فائرنگ کرکے کسی کو قتل یا زخمی بھی کردیا تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ چندمادرپدر آزاد درندے اُن کے ساتھ یہ سلوک کریں؟ کیا اس کے بعد پولیس کی ذمہ داری صرف یہ رہ جاتی ہے کہ اُس کے وردی پوش اہلکار دو مبینہ مجرموں یا ملزموں کو اس درندگی کے ساتھ قتل ہوتے دیکھتے رہیں؟
خوش کلام شاعر‘ عنایت علی خان نے کیا شعر کہا تھا
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
عنایت علی خان نے اسے سانحہ سے تعبیر کیا کہ لوگ ایک جان گداز حادثہ دیکھ کر رُکنے کے بجائے اپنی راہ لیں لیکن جب لوگ اس طرح کاخونیں کھیل دیکھ کر ٹھہرجائیں اور دست قاتل پکڑنے کے بجائے کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے اور حظ اٹھانے میں لگ جائیں تو اسے سانحے کی کون سی شکل کہا جائے؟ کیا ہمارا معاشرہ تہذیب کے قرینوں سے محروم ہوتا جارہا ہے ؟ کیا اس کی رگوں میں دوڑتا لہو برفاب کی شکل اختیار کرگیا ہے؟ کیا یہ ہمہ گیر زوال اور پستی کی نشانی نہیں کہ ہم سب کچھ پولیس کے ذمے دال کر اُن ذمہ داریوں سے غافل ہوجائیں جو ایک مسلمان یا ایک مہذب شہری ہونے کے ناتے ہم پر عائد ہوتی ہیں؟ اس سے تو بہتر ہوتا کہ ”حادثہ“ دیکھ کر لوگ ٹھہرنے کے بجائے آگے نکل جاتے۔ کیا ٹھہر کر ایک تماش بین ٹولی کا کردار ادا کرکے انہوں نے درندگی کی حوصلہ افزائی نہیں کی؟۔
اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دلسوزی بجا ہے۔ ”غضب خدا کا کسی نے بھی ظالموں کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کی۔ لوگ بھوکے ننگے تو مرہی رہے تھے۔ اب سڑکوں پر پولیس کی موجودگی میں ڈنڈے مارمار کرہلاک کیا جارہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسے واقعہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ڈی پی او کو فی الفور معطل کردیا جاناچاہئے تھا“۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے سوال کیا کہ ”آپ پاکستان کے بارے میں دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوگیا اور آئی جی نے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا…“۔
اب ایکشن لے لیا گیا ہے۔ دو پولیس افسران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے لیکن شاید یہ کافی نہ ہو۔ پولیس خود اس معاملے میں صف ملزمان میں کھڑی ہے۔ شاید وہ غیر جانبدارانہ او رمنصفانہ تحقیقات کے تقاضے پورے نہ کرسکے۔یہ کام کم از کم ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں قائم ایک کمیشن کرسکتا ہے جسے ایک اچھی ٹیم اور مکمل اختیارات کے ساتھ مختصر مدت میں تحقیقات کاکام سونپاجائے۔ دیکھا جائے کہ بلال نامی شخص کا قاتل کون ہے؟ دو زخمیوں کو کس نے نشانہ بنایا؟ اس واقعے سے مغیث اور منیب کا کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں؟
ایک جرم تو بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ منیب اور مغیث کو بے رحمی سے قتل کرنے والوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔ پولیس کا جرم آشکارا ہے کہ اُس نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور کافی دیر تک کھلی شاہراہ پر دونوجوانوں کو درندگی کا نشانہ بننے دیا۔ ایسے لوگ قاتل نہیں تو بھی شامل قتل بہرحال ہیں۔ رہے وہ تماشائی جو ڈھٹائی کے ساتھ ایک مکروہ واردات سے لطف اٹھاتے رہے تو دعا ہے کہ وہ الله کے غضب سے محفوظ رہیں ۔ قدرت ایسے لوگوں کو کم ہی معاف کرتی ہے۔
جناب سجاد بٹ کے دو ہی بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔ الله انہیں ہمت اور حوصلہ دے لیکن یہ دعا مانگتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔