دنیا بھر میں عالمی برادری قدرتی آفات سے آگاہی کا دن 13اکتوبر کو منارہی ہے جبکہ پاکستان میں 8اکتوبر کے ہولناک زلزلے کی مناسبت سے قومی دن سالانہ بنیادوں پر اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ لوگوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بروقت اور جدید طریقہ کار کے تحت شعور اجاگر کیا جا سکے، ملکی تاریخ میں بارہ سال قبل آنے والاشدید ترین زلزلہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جس کے نتیجے میں ملک بھر کے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار بیٹھے، متعدد علاقوں میں لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، زلزلے نے مالی و جانی نقصانات کے علاوہ زندہ بچ جانے والے متاثرین اور پوری قوم پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب کیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان زمانہ قدیم سے قدرتی آفات کا سامنا کرتا آرہا ہے اور آج کے دورِ جدید میں بھی انسان تمام تر ترقی کے باوجود قدرت کی بھیجی ہوئی آفات کے آگے بے بس نظر آتا ہے، میں نے دنیا کے کم و بیش تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور میری نظر میں تمام مذاہب میں قدرتی آفات بالخصوص زلزلے کے بارے میں معلومات پائی جاتی ہے، جیسے جیسے انسان شعور کی منازل طے کرتا گیا، سائنس کی ترقی سے انسان کے لئے علم و آگاہی کے نئے دروازے کھلتے گئے اور آخرکار کچھ ایسے سائنسی حقائق دریافت ہوئے جس پرآج کے انسانوں کی اکثر یت کا اتفاق ہے، جدید سائنس نے اس راز پر سے تو پردہ اٹھا دیاہے کہ زمین کی اندرونی سطح گہرائیوں میں مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے جن کے ہلنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کے اوپر زلزلہ محسوس ہوتا ہے لیکن کس وقت کہاں پر کتنی گہرائی میں کونسی پلیٹیں آپس میں رگڑ کھا رہی ہیں یا مستقبل میں کھا سکتی ہیں، اس کا کھوج لگانے سے انسانی دماغ تاحال قاصر ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس کی بنا پر ہر ذی شعور انسان خدا کے وجود اور عظمت کا قائل ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی ایک اور قدرتی آفت سیلاب ہے جس کا شکاریوں تو پاکستانی عوام قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہوتے آرہے ہیں لیکن حالیہ عشرے کے آغاز میں 2010ء کا سیلاب اپنی نوعیت کا خطرناک ترین تھا جس کے نقصانات کا تخمینہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 43ارب ڈالرز کا لگایا گیا ، ابھی بھی مون سون بارشوں میں شدت کی وجہ سے کم و بیش ہر سال شدید سیلاب کا خدشہ لاحق رہتا ہے، یہاں میں ایک اہم امر کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ جہاں ایک طرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک قدرتی آفات کا شکار ہوتے ہیں وہیں امریکہ جیسی سپرپاور بھی مہلک طوفانوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میری نظر سے گزری جس کے مطابق مستقبل قریب میں قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، جاپان، فلپائن، میکسیکو، سوڈان، افغانستان اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں، اس رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ قدرتی آفات سے پاکستان کی ستر فیصد آبادی، بھارت کی بیاسی فیصد اور بنگلہ دیش کی سو فیصد آبادی متاثر ہوسکتی ہے، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگرخطرے کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو بے شمار شہر بڑے طوفانوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بننے پر مجبور ہو سکتے ہیں، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 1989ء سے پاکستان کو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل کررکھا ہے ،اسی طرح کراچی کے حوالے سے مختلف موسمیاتی ماہرین کے بیانات گاہے بگاہے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ اگلے پانچ عشروں کے اندرملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بحیرہ عرب میںغرق ہوسکتا ہے لیکن ایسے خدشات دنیا کی دیگر بندرگاہوں کے کنارے قائم شہروں کے بارے میں بھی کیے جاتے ہیں جو میرے اس موقف کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ قدرتی آفات کسی ملکی سرحد کی پابند نہیں ہوا کرتی اورانسانی سلامتی کو لاحق چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی برادری کو علاقائی سیاست سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہئے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ ترقی پذیر قوموں کو اپنی ترقی کا روڈ میپ بنانے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی کامیاب پالیسیوں سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ہمیں اپنے عظیم دوست ملک چین کی عوامی پالیسیوں کو بطور رول ماڈل اپنانا چاہیے ، حکومتِ چین نے ماضی کے سیلاب کی وسیع پیمانے پر تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادی کے فقط ایک سال بعد 1950ء میں پندرہ بڑے دریاؤں پرڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور بیس سال کے عرصے میں ملک بھر میں سینکڑوں ڈیمز اور نہروں کا جال بچھا دیا، ورلڈ کمیشن آن ڈیمز کی 2000ء رپورٹ کے مطابق چین میں بائیس ہزار سے زائد ڈیم موجود ہیں اور بے شمار زیرِتعمیر ہیں، چین میںآج بھی شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن ڈیمز کی بدولت سیلاب کی تباہ کاریوںمیں کئی سو گنا کمی لائی جاچکی ہے، دوسری طرف ہر سال سیلابی پانی کو ذخیرہ کرکے کاشت کاری اور بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ خوبصورت ڈیمز کے پرفضا مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب ہیں۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک اور کامیاب مثال جاپان کی ہے، تین ہزار سے زائد مختلف جزیروں پر مشتمل سرزمین ِجاپان زمانہ قدیم سے زلزلوں کا سامنا کرتی آرہی ہے، رواں صدی کے آغاز 2004ء میں بحرہند میں زیر آب زلزلے کے باعث سونامی اپنی تباہ کاریوں کی بنا پر تاریخ کی ایک ہولناک قدرتی آفت سمجھا جاتا ہے جب بلامبالغہ ہزاروں افراد آناً فاناً موت کے منہ میں چلے گئے، آج جاپان دنیا بھر میں زلزلہ پروف عمارات کی تعمیر میں مستند مانا جاتا ہے، جاپانی ماہرین نہ صرف اپنے ملک کی عمارات کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے قابل ہوچکے ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی تکنیکی معاونت فراہم کررہے ہیں، ایک خبر کے مطابق جاپان میں قدرتی آفات کے موقع پر مدد فراہم کرنے کیلئے خودکار روبوٹ بھی تیار کئے جارہے ہیں۔ میرے خیال میں جب سے ہماری زمین خداوند تعالیٰ نے بنائی ہے تب سے ہی قدرتی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی زمین کے متعدد خشک حصے زیرآب آجاتے ہیں تو کبھی نئے جزیرے سطحِ سمندر کے اوپر ابھر کر سامنے آجاتے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کے متاثرین کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا قدرتی آفات کے بعد نقصانات کے ازالے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں یا پھر قدرتی آفات سے قبل ہی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں؟ ہمیں اس حوالے سے حقیقت پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ انسان قدرت کے کاموں میں مداخلت کے قابل تو نہیں لیکن قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصانات کی شدت کم ضرور کرسکتا ہے، دوسری طرف ہمیں اپنے سماجی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم قدرتی آفات کے متاثرین کو ان کے گناہوں کے نتیجے میں عذاب قرار دینے کی بجائے عملی امداد کی فراہمی یقینی بنائیں، میری نظر میں یہ درحقیقت قدرت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی کاہم خود کیسے سامنا کرتے ہیں اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پردوسرے متاثرین کی کیسے مدد کرتے ہیں، ہمیں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کیلئے عالمی برادری کے اشتراک سے مختصر المدتی اور طویل المدتی دونوں طرح کی حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے،اسی طرح قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ کاری کے بعد چندے اور امداد کی اپیل کی بجائے ہمیں پانی کے عظیم ذخیرے کو محفوظ کرکے قومی ترقی کیلئے استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہمیں ان قدرتی آفات میں پوشیدہ قدرت کے اس پیغام کو سمجھنا چاہئے کہ زلزلے اور سیلاب سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا کسی ملک کے بس کی بات نہیں لیکن انسانی تاریخ میں سرخرو وہی ممالک قرار پاتے ہیں جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے درپیش مشکلات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میںاپنے عوام کے بچاؤ کیلئے لائحہ عمل ٹھوس بنیادوں پر استوار کرتے ہیں۔