کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں ہے، تمام ادارے اپنا کام کررہے ہیں، اداروں کی کارکردگی یا فیصلے سے اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتا ہے، ان اختلافات کی وجہ سے جمہوریت ،آئین یا عوام کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے،دہشتگردی کی جنگ میں کامیابیوں سے فوج کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوا ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضیاء الدین،ماہر قانون کامران مرتضیٰ اور دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈاعجاز اعوان بھی شریک تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضیاء الدین نے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء کا دور گزر چکا،اب فوج جمہوریت کا دفاع کرے گی،پاک فوج کی قیادت پڑھے لکھے لوگو ں کے ہاتھ میں ہے،پرویز مشرف فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی بہت عرصہ سے کررہاتھا،کارگل واقعے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئی، پرویز مشرف نے شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تھی۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر عمران خان کو گرفتار نہیں کررہی،عمران خان کو ضمانت قبل از وقت گرفتاری کروا کر عدالت میں پیش ہوجانا چاہئے،مالی ایمرجنسی لگانے کیلئے حکومت کو پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہوگی۔
اعجاز اعوان نے کہا کہ پاک فوج کوئی ایڈونچرازم نہیں کرے گی،عدلیہ بھی نظریہ ضرورت دفن کرچکی ہے،عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کی کیفیت ہے ،چند مخصوص لوگ پاک فوج کو بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر نشانہ بنارہے ہیں۔وزیرخارجہ خواجہ آصف نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ بارہ اکتوبر 1999ء اور بارہ کتوبر 2017ء میں زمین آسمان کا فرق ہے، پرویز مشرف اپنے آمرانہ دور میں ہر چیز کو تباہ و برباد کرکے گئے، پرویز مشرف کا ہر اقدام اپنے دور کو طول دینے کیلئے تھا، 2008ء سے 2017ء تک جمہوریت نے سفر طے کیا، ستر سال میں پہلی دفعہ ایک سویلین حکومت نے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کیا،عدلیہ، پارلیمنٹ، میڈیا اور فوج سمیت تمام ادارے مضبوط ہوئے، فوج نے پچھلے چار پانچ سال میں دہشتگردی کی جنگ میں جو کردار ادا کیا پرویز مشرف کے دور میں ایسا کوئی کردار نہیں تھا، دہشتگردی کی جنگ میں کامیابیوں سے فوج کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوا ہے،پاکستان آج جمہوریت، معیشت، عدلیہ کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بارہ اکتوبر 1999ء کے پاکستان سے بہت بہتر ہے،بارہ اکتوبر 1999ء کے بعد میری وفاداری تبدیل کروانے کی کوششیں کی گئی، قید کے دوران میں تیرہ تحقیقاتی سیشن ہوئے جس میں آنکھوں پر پٹی ہوتی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضیاء الدین نے کہا کہ پرویز مشرف فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی بہت عرصہ سے کررہاتھا،کارگل واقعے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئی،کابینہ کے تین جون کے اجلاس میں تمام ارکان نے پرویز مشرف کو ریٹائر کرنے کیلئے کہا ،نواز شریف نے کہا کہ پرویز مشرف کو ریٹائر کرنا فوج کےمورال کیلئے خراب ہوگا،میں ان کو سمجھادوں گا، پرویز مشرف کو سمجھ آگئی تھی کہ اب ان کا بچنا مشکل ہے اس لئے انہوں نے منصوبہ بندی شروع کردی تھی، فوج نے ٹیک اوور کرنا ہو تو زیادہ منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جنرل ریٹائرڈ ضیاء الدین کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی تھی، پرویز مشرف کو ہٹانے کے طریقہ کار میں خامیاں تھیں، پرویز مشرف کو چیئرمین رہنے دیا جاتا لیکن آرمی چیف تبدیل کردیا جاتا تو شاید حالات بہتر رہتے، نواز شریف نے یو اے ای کے دورے میں مجھ سے پرویز مشرف کو ہٹانے سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی، نواز شریف ملکی معاشی مسائل کی وجہ سے متحدہ عرب امارات گئے تھے۔لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضیاء الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب مارشل لاء کا دور گزر چکا ہے، اب فوج جمہوریت کا دفاع کرے گی، فوج کی حمایت کے بغیر تیسری دنیا کے ملکوں میں جمہوریت نہیں چل سکتی ہے، اس وقت پاک فوج کی قیادت پڑھے لکھے لوگو ں کے ہاتھ میں ہے، پہلے والے محمود اور عزیز ان پڑھ قسم کے لوگ تھے۔