کراچی(ٹی وی رپورٹ)قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان مجھ پر کرپشن ثابت کردیں میں اپوزیشن لیڈر شپ چھوڑدوں گا اگر ایسا نہ کرسکیں تو وہ سیاست چھوڑدیں۔ نواز شریف کے نئے عمرانی معاہدے کے مطالبے سے اتفاق کرتا ہوں۔ فاٹا کا کے پی کے سے الحاق نہ ہونا حکومت کی غلطی نہیں زیادتی ہے۔ فوج پاکستان کا بہت بڑا ادارہ ہے، ان سے ہماری نہ پہلے لڑائی تھی ، نہ آج ہے اور نہ کل ہوگی ،ملک کی سیکورٹی ان کے ہاتھ میں ہے اور سویلین ان کی مدد کرتے ہیں ، پاکستان کے اندرونی و بیرونی معاملات میں کبھی خلفشار ہوتا ہے تو عسکری قیادت اس کو سنبھالتی ہے اور یقینا سویلین کا بھی کام ہے کہ اس کی مدد کریں ۔
آصف زردار ی کا اینٹ سے اینٹ بجانے کا اشارہ فوج نہیں بلکہ کچھ اور عناصر کی طرف تھا،بہت سے ایسے کوارٹرز تھے جو دھمکیاں دے رہے تھے،اس پر یہ بیان دیا گیا تھا جس کو میڈیا اور ہمارے مخالفوں نے بہت زیادہ اچھالا ۔ آصف زرداری پہلے بھی باہر تھے ابھی بھی کچھ عرصے کے لیے باہر گئے تھے لیکن اب اگر وہ ملک میں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صلح ہوگئی ہے،پاکستان ان کا ملک ہے اور گیارہ سال جیل کاٹی ہے۔وہ جیو نیوزکے پروگرام’’جرگہ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشیدشاہ کا ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں جب کورٹ ریلیف دیتی ہے تو سوال ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کیوں باہر آئے اور جب کسی پر مقدمات دائر ہوتے ہیں ۔ان کا ای سی ایل میں بھی نام نہیں ہوتا جبکہ ہمارے لوگوں کا نام بھی ای سی ایل میں ہوتا تو ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ابھی آپ کی ڈیل ہوگئی ہے ، میں تردید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اینٹ پر اینٹ رکھ کر ایک مضبوط پاکستان بناناہے ، پاکستان کے ساتھ فوج ، عدلیہ اور تمام اداروں کو مضبوط کرنا ہے،ریاست کو مضبوط تب کرسکتے ہیں جب ادارے مضبوط ہوں گے ،اداروں پر اعتماد بحال ہوگا تو پھر ریاست مضبوط ہوگی ۔جس ریاست میں فرد طاقتور ہوتے ہیں وہ ریاست کمزور نہیں نظر آتی ہے اور جب ریاست کمزور ہوجاتی ہے تو پھر چل نہیں سکتی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت ہمارے ملک کی خودمختاری کی گارنٹی ہے،اس گارنٹی کو چھیننا نہیں چاہیے ۔مارشل لاء نوازشریف کو سُوٹ نہیں کرتا وہ کیوں لگوائیں گے اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اگر وہ مارشل لاء لگوادیں اور مظلوم و غازی بن جائیں ،اس طریقے سے کوئی معصوم نہیں بنتا۔جاوید اقبال کا نام کہیں سے بھی نہیں تھا، یہ سرا سر میرٹ پر آئے ہیں ، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کا ریکارڈ دیکھ کر مجھے امید ہے کہ بہتر محتسب ثابت ہوں گے۔خورشید شاہ کا مزید کہناتھا کہ پر ویز مشرف نے جب مارشل لاء لگایا اور وہ ختم ہوا پی پی واپس آئی اور نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے ان کی مکمل سیٹیں 17تھیں اس کا مطلب جو معصومیت وہ لینا چاہتے تھے تو 2002میں میاں صاحب کی پارٹی آجاتی لیکن وہ تو 17سیٹیں لے کر آئی جبکہ 2008میں بھی وہ نہیں آسکے ۔
مسائل کا حل صرف جمہوریت ہے،مارشل لاء لگا تو ریاست کمزور ہوگی ، انہوں نے کہا کہ سی پیک پر امریکہ سمیت کئی ممالک نا خوش ہیں،مارشل لاء ان ہی قوتوں کی خواہش ہوسکتی ہے ، ٹرمپ کے بیانات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے ، امریکہ اور بھارت پاکستان میں عدم استحکام چاہتے ہیں ، امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ نظر آرہاہے ، خورشید نے کہا کہ نواز شریف کی رخصتی میں عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہونہ ہو میاں صاحب کی اپنی غلطیوں کا عمل دخل ضرور شامل ہے ، پاناما سے پہلے میاں نوازشریف پر کوئی بات نہیں تھی ، میاں نوازشریف نے پاناما کا سیاسی طور پر ڈیل کرنے کے بجائے اپنی پارٹی اور ذات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا اگر سیاست و سسٹم کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے تو شاید آج معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا لیکن میاں نواز شریف خود اپنی غلطیوں کی وجہ سے یہاں تک آئے ۔
عمران خان اور پرویز مشرف اشتہاری ہیں اس پر خورشید شاہ نے کہا کہ ہر چیز کا اپنا اپنا اسٹائل ہوتا ہے ان کے اوپر مقدمات چل رہے ہیں ، انہوں نے کہا ان میں ایک ملک سے باہر ہیں جس کو میاں نوا زشریف نے ہی چھوڑا ہے ، عدالتوں کا فرض بنتا ہے کہ برابری کی بنیادپر عمران خان اور طاہر القادری کو بھی پیش کریں ۔ان کی عدم گرفتاری عدالتوں کی غلطی ہے ، حکومت اس لیئے پکڑ سکتی کیونکہ کیس عدالت میں ہے ۔ اشتہاری قرار دینا وارنٹ تو ہوتا ہے لیکن سیاسی طور پر اس کو ہم اچھا نہیں سمجھتے ۔عدالتوں کو پاکستان کے اندر اور باہر اپنی برابری ثابت کرنی ہوگی ۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں میزبان سلیم صافی نے نیب کے چیئرمین کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ حکومت اور اپوزیشن کا نیب چیئرمین پر خوش اسلوبی سے اتفاق ہونا عمران خان کے مک مکا اپوزیشن کی رائے کو تقویت نہیں پہنچاتا، اس کے جواب میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ عمران خان سے بھی کہا گیا تھا مگر پی ٹی آئی نے ہمیں تین نام دیے جس میں سے ایک نا م کو آخری حتمی ناموں میں بھی زیر غور لایا گیا لیکن جسٹس جاوید اقبال کی پروفائیل دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہی مضبوط تھی اس وقت مجھے جو بہتر سے بہتر پروفائل نظر آئی تو ہم نے اس پر حکومت کو قائل کیا اور ان کی تعیناتی ہوئی۔ایک سوال کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ جاوید اقبال کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے اس وقت ڈکٹیٹر کے کہنے پر چیف جسٹس کا حلف نہیں اٹھایا اس کے بعد انہیں راضی کرنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے بات نہیں مانی دوسرا اس کی ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جو میں سمجھتا ہوں ابھی تک کسی نے اس کو ہٹ نہیں کیا،لاپتہ افراد کے حوالے سے جن حالات میں جاوید اقبال نے یہ کام کیا اس میں بہت سے لوگوں کے کیسز چلانا اور کچھ کو رہا کرانا یہ سب خوبیاں ان کی دیکھی جائیں تو اس وجہ سے بھی ان کو ترجیح دی گئی۔نام دینے کے سوال میں خورشید شاہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کا نام پارٹی سے میں نے تجویز کیا تھا، اس سوال کے جواب میں کہ چیئرمین نیب کا فیصلہ اصل میں کن دو شخصیات کے درمیان ہوا ہے نواز شریف یا زرداری یا ،اپوزیشن لیڈر یا وزیر اعظم کے ، اس کے جواب میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کچھ بھی ہوتا تو میں آپ کو کان میں بتا دیتا کیونکہ جو نام تجویز کیے گئے تھے وہ آپ بھی جانتے ہیں کہ کہاں کہا ں سے تھے ایک دو نام ایسے بھی تھے جن کے لیے کہا جاسکتا تھا کہ یہ وہاں سے اور میاں صاحب کی طرف سے بھی ایک دو نام ایسے تھے جو کہا جاسکتا تھا کہ ان کی طرف سے ہے لیکن جاوید اقبال کا نام کہیں سے بھی نہیں تھا، یہ سرا سر میرٹ پر آئے ہیں ، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کا ریکارڈ دیکھ کر مجھے امید ہے کہ بہتر محتسب ثابت ہوں گے، سلیم صافی کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کو توقع ہے کہ میرٹ پر احتساب کرنے والے شخص کو نواز شریف یا شاہدخاقان عباسی قبول کریں گے ؟ اس کے جواب میں قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ پھر کس کو کریں گے وہ بندہ آسمان سے ڈھونڈ کر تو نہیں لائیں گے، انہوں نے ایک نام تجویز کیا تھا جو آئی بی اے کے چیف تھے جو متنازع ہوگئےجبکہ ایک شعیب سڈ ل کا نام تھا جو زیر غور آیا۔