• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست عدالتوں کو تحفظ فراہم کرے فکرفردا … راجہ اکبردادخان

ہر معاشرہ میں حصول انصاف کی خاطر عدالتوں میں بیٹھنے والوں کے جسمانی اور ذہنی تحفظ کو یقینی بنانا ریاستی اداورں کی اہم ترین ذمہ داری تسلیم کی جاتی ہے۔ ملکی قوانین کے تحت حل طلب معاملات میں عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر ہی کوئی معاشرہ فنکشنل رہ سکتا ہے۔ ورنہ تمام معاشرہ ایک جنگل میں تبدیل ہوجاتا ہے جہاں صرف طاقتوروں کا راج چلتا ہے۔ ایسا ماحول نہ تو مہذب انسانیت اور نہ ہی کسی اسلامی جمہوریہ پاکستان جو ایک ایٹمی قوت بھی ہو، اس کے علاوہ کئی بڑی قسم کے دعوے کرتی پھررہی ہو کا عکاس نہیں ہوسکتا ۔ اگر عسکری قوتیں حکومت اور پارلیمنٹ ریاست میں اپنے چوتھے پارٹنر (عدلیہ) کو محفوظ بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ تو اس ناکامی کے نتیجہ میں انار کی کی زد میں ریاست سنگین بحرانوں کا شکار ہوسکتی ہے۔ پچھلے تین سالوں پہ پھیلی ملکی سیاست کئی بحرانوں سے گزری، تاہم ماضی قریب تک بیشتر قومی ادارے آئین وقانون کے مطابق بڑی حد تک کام کرتے رہے، حکومت بسا اوقات وکٹ سے باہر کھیلتی نظر آئی، مگر ایک مضبوط غیر جانبدار اعلی عدلیہ کی موجودگی اس کی من مانی سوچوں کی تکمیل کی راہ میں ایک رکاوٹ بنی رہی، ایسے مشکل حالات میں چلتے نظام کو اسٹیبلشمنٹ نے مکمل تحفظ فراہم کیا تاکہ جمہوریت چلتی رہے کئی ایسے مواقع آئے جب جمہوریت اپنے ہی بوجھ تلے زمین دوز ہونے کے قریب پہنچ گئی، کرپشن پر طویل مضبوط پرامن احتجاج اور پانامہ لیکس کی بنیاد پہ سابق وزیراعظم نے از خود عدالت عالیہ سے مداخلت کی تحریری درخواست کی حکومت طویل عرصہ تک معاملہ آگے نہ بڑھنے دیا، بالآخر طویل عرصہ تک بھرپور انداز میں کیس چلنے کے بعد شریف خاندان کے پانچ افراد اوراسحق ڈار کے خلاف مختلف ریفرنسز دائر کیے جانے کا متفقہ فیصلہ آیا اور نوازشریف کو نااہل کرکے وزرارت عظمی سے فارغ کردیا گیا۔ دو تین ماہ تک چلے اس کیس کے دورانیہ میں روزانہ حکومتی وزرا اور ترجمان میڈیا میں آکر حکومتی کامیابیوں کی خوشخبریاں سناتے رہے، جے آئی ٹی بننے تک ہر مرحلہ پہ شریف خاندان کیس سے جڑے معاملات سے نہ صرف مطمئن دکھائی دیا بلکہ اس موقع پہ مٹھایاں بھی بانٹیں گئیں۔ جے آئی ٹی میں موجود میٹریل سے اس خاندان کیلئے مشکلات بڑھ گئیں۔ کیونکہ جواب موجود نہ تھے اور سپریم کورٹ اور تمام عدالتی پراسس پہ غیر مہذب زبان میں تنقید کا حکومتی بازار سج گیا اور جو جس کے منہ میں آیا حکومتی ٹیم نے یک زبان ہوکر دھمکیوں اور لفویات کے محرمہ جج صاحبان جے آئی ٹی ممبران اسٹیبلشمنٹ کے دروازوں پہ ڈھیر لگادیئے ہیں۔ کیونکہ اعلی عدلیہ نے معاملات کو چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کا فیصلہ دے رکھا ہے۔ اس لئے عدالت عالیہ ان فروعی معاملات میں الجھے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ سابق وزیراعظم اور اسحق ڈار کی مختلف پیشیوں کے مواقع پہ حکومتی وزرا ان کے حامی وکلا اور حامیوں نے جس طرح عدالتی کاروائیوں کو سابو تاژ کیا ہے اور جس انداز میں عدالتی جج کو دبائو میں لایا گیا ہے پراسیکیوٹرز اور عملے کے دیگر لوگوں کی مارپیٹ کی گئی ہے۔ اس کا بیشتر حصہ لوگوں نے ٹیلی ویژن پہ دیکھا ہے اور تفصیلات اخبارات میں پڑھی ہیں۔ یقینا ثابت ہوچکا ہے کہ یہ قانون شکن کاروائیاں حکومتی شہ پہ کی جارہی ہیں مقاصد واضح ہیں کہ متعلقہ افراد پہ فرد جرم عائد ہونے کے پراسس کو اس پراسس ڈیل ریل رکھتے ہوئے کو اتنا کمزور کردیا جائے کہ مزید آگے نہ بڑھ سکے اور کوئی فرد جرم عائد نہ ہوسکے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال درست ہی کہہ رہے ہیں کہ ایک ملک کے اندر دوریاستیں نہیں چل سکتیں۔ ایک نظام اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہے۔ جس میں آزاد نظام عدل کی آئینی گارنٹیز ہیں اور حکومت ریاست کی نمائندگی کرتی ہے ایک انکا من پسند نظام عدل ہے جو ان کی حکومت نافذ کریکی کوشش کررہی ہے۔ جس کے اہم واضح پہلو یہ ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی عدالتی پراسس کے ذریعہ تضحیک کی جائے اور ان فیصلوں پہ عمل نہ ہونے دیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے سامنے ہورہا ہے صاف واضح ہے کہ حکومت عدالت عالیہ کے فیصلوں کو شریف خاندان کے حوالہ سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اورایسا بحران پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے شریف خاندان کی لئے بچت کا ماحول پیدا ہوسکے۔ ہر نظام عدل کو اپنے فیصلوں پہ عمل درآمد کیلئے حکومتی تعاون کا محتاج ہے۔ جب اوپر سے نیچے تک حکومتی کارندے اپنے حقیقی وزیراعظم کے خلاف عدالتی احکامات پہ عمل درآمد نہ کروانے کے فیصلے کرلیں۔ تو ان احکامات کی عملی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ آج جب اس بڑے فیصلہ پہ عمل درآمد حوالہ سے عدالت عالیہ اور حکومت کے درمیان ٹکرائو کی عملی شکل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جس سے ملک کے لئے آئینی اور قانونی حکمرانی کے سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ حکومت خود ہی اپنے دو معتبر ترین اداروں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے بیک وقت حالت جنگ میں  ہے جس سے قانون کی حکمرانی اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا قومی مفاد میں ضروری ہے صدر مملکت اور آرمی چیف مداخلت کرتے ہوئے حکومت کوپرزور مشورہ دیں کہ سپریم کورٹ احکامات پہ عدالتی پراسس کی راہ میں نہ صرف رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں بلکہ اعلی ترین عدلیہ کے احکامات کی تعمیل کو یقینی بنایاجائے۔ حالات اس حد تک مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں کہ ایسی انٹروینشن کا نہ ہو نا ایک بدقسمتی ہوگا۔ حکومتی پارٹی نہیں چاہتی کہ فرد جرم عائد ہوجائیں اور چند مزید تمغے ان کے گلے پڑ جائیں ۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی پوائنٹ سکورنگ گیم کررہی ہیں۔ اگر ہر کوئی عدالت عالیہ کے فیصلہ کے ساتھ کھڑا ہے تو اس فیصلہ پہ عمل درآمد کروانے میں رکاوٹوں کو ہٹانے میں چند بڑے سیاسی رہنمائوں کی ہچکچاہٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ قدم بھی شاید کسی غیر روایتی رہنما کو ہی اٹھانا پڑےگا۔یہ عدالتی فیصلہ اور اس پہ عملدرآمد کروانا ریاست کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سال پہ پھیلے حکومتی دھونس دھاندلی کے رویوں کے باوجود ہائی کورٹس اور عدالت عظمی کے محترم جج صاحبان نے اپنے منصفانہ فیصلوں کی بنا پہ ایک غیر فعال ریاستی ماحول کو تقویت دے رکھی ہے کہ ملک جس طرح بھی سے چلایاجارہا ہے وہ ایسے قومی امور کے حوالہ سے پریشانیوں کی طرف بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان دو اداروں کے حالیہ کردار نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ انہیں عوامی امیدوں کا محور بنادیا ہے موجودہ حالات میں لوگ حکومتی عدم تعاون دیکھ کر سر پکڑے بیٹھے ہیں ۔ اس سپریم کورٹ فیصلہ کی تکمیل کیلئے معزز جج صاحبان پراسیکیوٹرز اور ان عدالتوں سے جڑے دیگر ملازمین کو ہر طرح سےمحفوظ کرنے کے اقدامات کیے جائیں اور ایسا کرنا کسی کی تو ذمہ داری ہونی چاہئے پیشیوں کے موقع پہلے سے طے شدہ انتظام کے تحت محدود لوگوں کو پاس جاری کئیں جائیں۔ اور عدالت سے کم از کم ایک ہزار گز دور حدود تک کسی نان پاس ہولڈر کو داخل نہ ہونے دیاجائے۔ اگرایسے واقعات کسی مغربی معاشرہ میں ہوتے تو لوگ ایسی عدالتوں میں کام کرنے سے ہی انکار کردیتے کیا ہماری ریاست پہ یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اس درجہ کی عدالتوں میں سیف اور اہل انداز میں کام کرنے کا ماحول فراہم کرے؟ یقینا ایسا ہی ہے مگر ہم منجمد ہوئے بیٹھے ہیں حکومت یہی چاہتی ہے کہ ان کیسز کو چلانے کیلئے ڈرخوف کی وجہ سے کوئی کام کرنے کیلئے تیار ہی نہ ہو، جلد سینیٹ میں اکثریت بھی مل جائیگی اور ہر طرح کی من پسند تبدیلیاں لے آنا بھی ممکن ہوجائے گا۔ یہ ہیں آئندہ 7-6 ماہ کی حکومتی پالیسی کے چند خدوخال اور یہ ہیں وہ ذرائع جن سے اس تصویر میں رنگ بھرے جائیں گے۔ اگر سپریم کورٹ احکامات پہ عمل نہیں ہوتا۔ تو ریاست واضح کرے کہ لوگ حصول انصاف کیلئے کہاں دستک دیں؟ اللہ انصاف کرنے والوں کو ہمت دے کہ وہ بلا خوف وخطر ملک وقوم کی خدمت کرتے رہیں۔

تازہ ترین