اس وقت اگرپاکستان فوج کے آرمی چیف پرویز مشرف ہوتے تو پاکستان اب تک ایک اور فوجی بغاوت کا تجربہ کرچکا ہوتا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا کیونکہ پرویز مشرف کے بعد آنے والے جنرل اشفاق کیانی ایک الگ قسم کے انسان ہیں۔ وہ مشرف کی طرح باتونی اور رعب دار نہیں بلکہ منکسرالمزاج، محتاط اور مختصر بات کرنے والے انسان ہیں۔ یہاں پر یقیناً فوجی بغاوت کے سر نہ اٹھانے کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ بین الاقوامی کمیونٹی اور عالمی طاقتیں پاکستان میں ایک اور فوجی بغاوت اور منتخب جمہوری حکومت کی برطرفی سے خوش نہیں ہوں گی۔ علاوہ ازیں فوج کی شہرت کو جنرل پرویز مشرف کے طویل دور صدارت کے باعث کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے جو تاحال مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکا اگرچہ فوج اب بہتری کی طرف مائل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی نمایاں سیاسی جماعت فوجی حکومت کے حق میں نہیں اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت گرجاتی ہے جو حزب اختلاف کی جماعتیں اور جنہوں نے 2003ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، اس پر ہرگز آنسو نہیں بہائیں گی۔ اس مرحلے پر فوج کے اقتدار میں نہ آنے کی ایک اور وجہ پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز کا سامنا اور لوگوں کی ضروریات بالخصوص سیلاب سے متاثرین کی ضروریات پوری نہ ہونے پر عوامی حمایت میں فوری طور پر آنے والی کمی ہے۔ تاہم فوج پردے کے پیچھے رہ کر بھی اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے حاصل کرسکتی ہے تاکہ اگر کچھ غلط بھی ہوجائے تو سارا الزام سویلین حکومت پر ہی آئے بہرکیف جب کبھی بھی آرمی جنرلز نے سویلین کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے دخل اندازی کی انہیں برا بھلا ہی کہا گیا اور اس طرح انہوں نے اپنے ادارے کی شہرت کو متاثر کیا ہے۔
مشرف کو اگرچہ اکتوبر 1999ء میں کی جانے والی فوجی بغاوت پر کوئی ندامت نہیں تھی جس نے وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کردیا جس سے پاکستان کو مسلسل بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم حال ہی میں لندن میں اپنی نئی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے اپنی چند غلطیوں پر معذرت کی ہے جس میں بے نظیر کے ساتھ ہونے والی متنازع قومی مفاہمتی آرڈیننس ڈیل اور 2007ء میں پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے معطل کرنا بھی شامل تھا لیکن انہیں آئین کی خلاف ورزی، فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری حکومت کو ہٹانے اور اپنے غیر آئینی اقدامات ، جس میں ایمرجنسی کا نفاذ جو مارشل لا کے مترادف تھا، پر کوئی دکھ نہ تھا تاہم یہ کہتے ہوئے کہ انسان ہی غلطیاں کرتے ہیں، مشرف کیلئے اپنے سیاسی فیصلوں پر معافی مانگنا ہی کافی نہیں ہے۔ انہیں اس کی ضرورت، فوجی وردی میں کئی برسوں تک غیرقانونی طور پر سیاست کرنے کے بعد دوبارہ سیاست میں داخل ہونے کے ارادے کی وجہ سے پیش آئی ہے اور اب وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے عوامی حمایت کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اب وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے گویا وہ انسان نہیں ہیں اور آئندہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوگی۔ اب ایک سیاست دان کی حیثیت سے ریٹائرڈ جنرل یقینی طور پر شہرت حاصل کرنے کیلئے رائج طریقہ کار کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے لوگوں سے ان ناقابل حصول چیزوں کا وعدہ کر رہے ہیں جنہیں وہ اقتدار میں طویل مدت رہنے کے باوجود بھی اپنے لوگوں کو فراہم نہیں کرسکے۔
سیاسی طور پر پرعزم جنرل، ملکی اقتدار کی خواہش کو نو سال کے بلاشرکت غیرے اقتدار نے مزید بھڑکا دیا ہے، نے یہ کہتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے کہ پاکستان کو ایک اور فوجی بغاوت کا خطرہ ہے۔ درحقیقت وہ کیانی کو اپنے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوجی بغاوت کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جب غیرفعال حکومت ہو اور عوام اور معیشت نیچے جا رہی ہو تو عوام کا فوج پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرے۔ مشرف نے اپنا دور یاد کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ وہ بھی بطور آرمی چیف سخت دباؤ کا شکار تھے۔ جب بہت سے لوگ ان کے پاس آئے اور انہیں پاکستان کو بچانے کیلئے اقتدار حاصل کرنے پر قائل کیا۔ یہ ایک غلط بیانی ہے اور شاید اس میں سچائی بھی نہیں ہے۔ مشرف اقتدار حاصل کرنے کیلئے موقع کے منتظر تھے۔ انہوں نے پہلا موقع ہی اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اقتدار حاصل کرنے کا جواز پیش کرنے کی غرض سے حکومت پر مقدمہ بھی بنا ڈالا۔ اپنی حالیہ تقریر میں جس طرح سے انہوں نے نواز شریف کو دماغ سے فارغ البال قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ذات میں اس وقت کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کیلئے کتنا متنفر تھا۔ ان دونوں کے درمیان شکوک و شبہات موجود تھے کیونکہ مشرف نوازشریف کی ذہنی صلاحیتوں سے قطعاً متاثر نہیں تھے اور وہ کسی بھی ایسے شخص کے سامنے پیش ہونے کیلئے تیار نہ تھے جسے لوگوں اور پارلیمنٹ نے وزیراعظم کے طور پر چنا ہو۔
مشرف کو شاید اتنی عوامی حمایت نہ مل سکے جس سے وہ اپنی سیاسی واپسی کو درست ثابت کرسکیں لیکن انہیں عملی سیاست میں دیکھنا نہایت پرلطف ہوگا۔ ان کا جنگجویانہ انداز اور بات کرنے کا طریقہ کار، ان کے حریفوں کو ہمیشہ چوکنا رکھے گا، وہ ہمیشہ میڈیا کا مرکز رہیں گے، اگرچہ اس کی وجوہات، غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ مشرف کا انداز ہمیشہ سے بارعب رہا ہے اور انہوں نے اپنے بیانات میں ہمیشہ دوٹوک بات کہی ہے۔ وہ اپنے دماغ میں آئی ہوئی بات کا اظہار کرنے میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوتے اگرچہ وہ کتنی ہی متنازع کیوں نہ ہو۔ ان کی جانب سے پاکستان کے معاملات میں، فوج کو آئینی کردار دینے اور امریکہ اور اس کے مغربی اتحایوں کو افغانستان نہ چھوڑنے کی تجاویز کی مخالفت بھی ہوئی ہے اور ان پر تنقید بھی کی گئی ہے لیکن مشرف اپنے ارادے پر سختی سے قائم ہیں کہ ان کے خیالات کا تعلق ذہنی حقائق سے ہے۔
بہرحال مشرف کے پاکستان جلد آنے کے امکانات کم ہیں لہٰذا اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور ایسا سیاسی لیڈر ملنے والا ہے جو لندن میں بیٹھ کر ٹیلیفون کے ذریعے اپنے امور انجام دے گا اور اپنے حمایتیوں سے ملک میں خطاب کرے گا۔ الطاف حسین نے یہ آئیڈیا ایجاد کیا اور ازخود جلاوطن ہونے والے سیاستدانوں کو یہ راہ دکھائی کہ وہ کیسے اپنے پیروکاروں کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔(جاری ہے)