اپنے تمام ”کارناموں“ کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر سابق صدر پرویزمشرف اپنے دامن پر لگے سیاہ دھبوں کو دھونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بہت سے سیاستدانوں بشمول میر ظفر اللہ جمالی اور چوہدری برادران کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرکے پاکستان کی طوفانی سیاست میں کچھ جگہ بنا سکیں گے؟ الزامات کی بوچھاڑ کرکے ہی ہلچل پیدا کرتے رہیں گے مگر انہیں کچھ سیاسی مقام نہیں حاصل ہو سکے گا۔ ان کا سب سے بڑا ہدف قاف لیگ اور چوہدری برادران ہیں جو ان کے ساتھ آٹھ سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ پہلے ہی اس جماعت کی سیاسی حیثیت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ہاں البتہ اس کے کچھ رہنما اپنے اپنے آبائی حلقوں میں مناسب مقام رکھتے ہیں اور خاصے ووٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں جو ان کو جیت سے ہمکنار تو نہیں کرسکتے مگر کسی دوسری جماعت خصوصاً نون لیگ کے امیدواروں کا نقصان ضرور کرسکتے ہیں۔ ایک لحاظ سے پرویز مشرف کے نون لیگ اور قاف لیگ پر حملے پیپلزپارٹی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ لیگوں کے ووٹ تقسیم ہونے سے فائدہ یقیناً پیپلزپارٹی کو ہوگا۔
پرویز مشرف کی کچھ باتیں حقیقت سے نہ صرف بہت دور ہیں بلکہ دل ودماغ کو بھی نہیں بہاتیں۔ مثلاً ان کا یہ کہناکہ چوہدری برادران نے انہیں مجبور کیا کہ وہ بینظیر بھٹو شہید سے سیاسی ڈیل کریں جس کے نتیجے میں نیشنل ری کنسلی ایشن آرڈیننس (این آراو) کا نفاذ ہوا۔ مشرف فوجی حکمران تھے اور چوہدری صاحبان ان کے سیاسی حمایتی تھے وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ مشرف کو کسی بات پر مجبور کرسکتے بلکہ صدر /آرمی چیف کی ہر بات ان کیلئے حکم کا درجہ رکھتی تھی اور انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑتا تھا ورنہ ہم سب کو معلوم ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو نیب حرکت میں آجاتا۔ لہذا ہر لحاظ سے این آر او پرویزمشرف کی اولین ضرورت تھی اور چوہدری برادران نے اسے اپنے مفاد میں جانا کہ اس طرح وہ نوازشریف کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کیلئے سب سے بڑا سیاسی دشمن نوازشریف تھا نہ کہ بینظیر بھٹو ۔ باقی رہی بات تفصیلات کی کہ تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی رہنی چاہئے یا نہیں اور کرپشن ریفرنس ختم ہونے چاہئے یا نہیں تو یہ جو چوہدریوں اور مشرف نے مناسب سمجھا کر لیا۔ مگر یہ بات طے ہے کہ پرویزمشرف نے این آر او کے ذریعے بینظیر بھٹو کو رعایتیں دے کر دوسری بار صدر منتخب ہونے کو یقینی بنانا لیا تھا۔ 2007ء میں صدارتی انتخاب سے صرف ایک دن قبل این آر او کو نافذ کیا گیا اس کے مطابق پیپلزپارٹی نے اپنی حکمت عملی بنائی اور مشرف صدر منتخب ہوگئے۔ لہذا یہ سب کچھ ایک ڈیل کا نتیجہ تھا جو مشرف اور بینظیر کے درمیان ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ مشرف جو کچھ کہہ رہے ہیں سفید جھوٹ ہے سیاستدانوں کے اس وطیرے پر کہ ایک غلطی جو وہ سالہا سال کرتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں پھر جب یہ دور ختم ہوجاتا ہے اور وہ بے بس ہو جاتے ہیں تو اپنے کئے پر قوم سے معافی مانگ لیتے ہیں پر ایک تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ معافی صرف سیاست چمکانے کیلئے مانگی جاتی ہے۔ اگر ایسے افراد کو دوبارہ موقع ملے گا تو یہ پھر یہی سیاہ کارنامے کریں گے اور پھر قوم سے معافی مانگ لیں گے۔ قانون کی نظر میں غیر قانونی کاموں کیلئے معافی نہیں سزا ہے اور ایسے حکمران سزا کے مستحق ہیں نہ کہ معافی کے ۔ پیپلزپارٹی نے نہ صرف این آر او سے فائدہ اٹھایا بلکہ ہمیشہ اس کا دفاع کیا اور اسے میثاق مدینہ سے تعبیر کیا۔ اب چند دنوں میں اس کے وکلاء پھر عدالت عظمیٰ میں این آر او کا بھر پور دفاع کریں گے وہ پہلے ہی پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا جب سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی تھی۔ ان کا دفاع ثابت کرے گا کہ پیپلزپارٹی ہی نے این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا۔ مشرف بھی اس سے فیض یاب ہوئے مگر جب انہیں کرسی صدارت سے ہٹا دیا گیا تو ان کا حاصل کردہ فائدہ ختم ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے زعما کا تواتر سے یہ کہنا کہ این آر او مشرف اور بینظیر میں ڈیل کا نتیجہ نہیں تھا سفید جھوٹ ہے ان کے اقدامات کچھ اور کہہ رہے ہیں اور اعمال کچھ اور۔ اگر یہ ڈیل نہیں تھی اور صدر آصف علی زرداری نے اس سے سب سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات جو این آر او کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ میں ختم کردیئے تھے کیوں دوبارہ شروع نہیں کئے جارہے۔ صرف اسی نقطہ پر حکومت کی بقاء اٹکی ہوئی ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ ہرحال میں اپنے 16 دسمبر 2009ء کے فیصلے پر عملدرآمد چاہتی ہے تاکہ کرپشن کے مقدمات دوبارہ شروع ہوں اور حکومت بضد ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گی۔
پرویزمشرف کی یہ بات کہ انہیں نہیں معلوم کہ کب اور کیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکیوں کے قبضے میں آئی بھی سفید جھوٹ ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے وقت کا فوجی حکمران جس کا تمام حکومتی اور ریاستی اداروں پر مکمل کنٹرول تھا اسے اس واقعہ کا علم نہ سکا ہو۔ ظفر اللہ جمالی نے آخر بھانڈا پھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ انہوں نے مشرف کے سامنے ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ اٹھایا تھا مگر انہیں خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ مشرف کا یہ کہنا کہ انہوں نے ایک بھی پاکستانی امریکہ کے حوالے نہیں کیا ایک اور جھوٹ ہے۔ ان کی اپنی کتاب اس حقیقت کی تردید کرتی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ سابق صدر کی یہ بات یقیناً صحیح ہے کہ نوازشریف کو دسمبر 2000ء میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کے کہنے پر جلاوطن کیا گیا۔ نون لیگ کے سربراہ کے سعودی عرب جانے پر نوازشریف اور ان کے خاندان اور خود پرویزمشرف نے سکون کا سانس لیا تھا۔ نوازشریف خوش تھے کہ مشکلات سے جان چھوٹی اور پرویزمشرف جو اس وقت بیگم کلثوم نواز کی سیاست سے سخت پریشان تھے خوش ہوئے کہ اب وہ بڑے سکون سے حکمرانی کرسکیں گے کیونکہ دوسری مقبول سیاسی لیڈر بینظیر بھٹو پہلے ہی اپنی خود ساختہ جلاوطنی کی وجہ سے بیرون ملک ہیں ۔ پرویزمشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف کارروائی اور 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی پر بھی معافی مانگی ہے تاہم وہ اپنی صدارت کے آخری دو سالوں میں ان اقدامات کا بھرپور دفاع کرتے رہے باوجود اس کے کہ انہیں نظر آرہا تھا کہ ان کی وجہ سے وہ ڈوب رہے ہیں ۔ سیاست کے میدان میں داخل ہونے کے بعد ان کا کام صرف سیاسی گند ڈالنا ہی ہوگا اور دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑکرنا۔ ان سے کسی مثبت کام کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ان کا ملکی سیاسی میدان میں کچھ مقام بننا ہے۔ وہ باہر ہیں اور وہیں رہیں گے۔