• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادہ پرانی بات نہیں محض دو سال قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں ایک ’’نازک موقع‘‘ پر متوقع سیاسی بحران پیدا کئے جانے کی طرف اشارتاً خبردار کیا بلکہ باز رکھنے کے لئے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی نتیجتاً اپنے تئیں سچ بات کہنے کی پاداش اور سیاسی بےمروتی کی رسوائی سمیٹ کرجان بچانے بیرون ملک غائب ہوگئے تھے۔ سیاسی پنڈت ان کی سیاسی فہم وفراست سے زیادہ اس حساس نشاندہی کو ان کی چالاک و ہوشیار سوچ کا کمال اور سیاسی خطرات کی بو سونگھنے کی نازک حس سے تعبیر کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس گفت گو کا ایک لفظ بھی موجودہ حقائق سے برعکس نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ زرداری نےحالات کو بھانپ کر اپنی چال چلی، کوئی ساتھ نہ کھڑا ہوا تو طاقتوروں کے ہمنوا بننے میں عافیت جانی اور انہی کی حفاظتی ضمانت پر واپس بھی آگئے۔ تاہم نواز شریف روایتی ضدی طبیعت کے سبب نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ نکالے جانے کی وجہ ڈھونڈنے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کی سعی لاحاصل میں اب تک سرکرداں ہیں، حالات کی ستم ظریفی ہے کہ فردجرم عائد ہونے کےبعد منہ بولا بھائی اپنے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی کے بدلے شریف خاندان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ملکی تاریخ کی کمزور ترین عباسی حکومت قومی مفاد سمیت تمام اندرونی وبیرونی معاملات سےجان بوجھ کر روگردانی کرتے ہوئے اپنے قائد کی تابعداری اوران کو بچانے میں لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ دراصل شیڈو کیبنٹ ہے اور ان کی واحد ذمہ داری قومی اداروں سےلڑنا اورحکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کوئی ایڈونچر نہ کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود کوئی اس وعدے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ شاید اس لئے کہ سات گھنٹے بند کمرے میں سر جوڑ کر اندرونی و بیرونی معاملات پر غور کیا جائے، ملک کی گرتی معاشی صورت حال پر تین سے زائد گھنٹے غور اور گہری تشویش ظاہر کی جائے، غیرملکی قرضوں کے بدترین بحران سے نکالنے کی تدبیریں سوچی جائیں اور مشورے لئے جائیں اور پھر اجلاس کی معلومات پرلب کشائی کے تقاضوں کے جواب میں خاموشی کو زبان قرار دیا جائے، تو سب کچھ اچھا ہونے اور کچھ نہ کرنے پر یقین کون کرے گا؟ بہرطور عوام تو مہنگائی، بےروزگاری، تنگ دستی اور معاشی بےحالی کے سبب جمہوریت کی قلفی بھی کھانے سے محروم ہیں جو وقت کے ساتھ نہ صرف پگھل رہی ہے بلکہ افادیت بھی کھورہی ہے، حالت یہ ہےکہ زرمبادلہ کے ذخائر دو چار مہینوں میں 22 سے کم ہو کر 19ارب ڈالرز سے کم ہوچکے، اندرونی و بیرونی قرضے جی ڈی پی کی شرح سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں، روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے، اندرونی و بیرونی سرمایہ ناپید اور مہنگائی ہر گھنٹے بعد بڑھ رہی ہےجبکہ بنیادی کھانے پینے کی اشیا پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں ،بے روزگاری پڑھے لکھے نوجوانوں کو اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی جیسے جرائم پر مجبور کر رہی ہے، متفقہ نیشنل ایکشن پلان عمل کی بجائے نااتفاقی کا سبب بن چکاہے۔ جہاں صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ روشنیوں کے شہر میں دن دیہاڑے چھرا مار عوام کی محافظ فرض شناس پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والوں کے لئے مشکل چیلنج ہے، جہاں سیاست ایک دوسرے کی کردارکشی اور غیرسیاسی سطح کو چھو رہی ہو، جہاں بجلی کا بحران ختم کرنے کا وعدہ نجی بجلی گھروں کو اربوں روپے ماہانہ دے کر بجلی بنانے کا دھوکہ ثابت ہوچکا ہو، جہاں جمہوریت پسند خدمت سے ووٹروں کےدل جیتنے کی بجائے اب وفاداری کا دم بھر کے اقتدار میں آنے کا سنہری خواب دیکھتے ہیں، جہاں کسی بھی سطح پرعوام کی شنوائی کا کوئی سامان نہیں ہے، تو وہاں سیاسی وجمہوری نظام میں کمزوری اور خلا کا پیدا ہونا فطری عمل نہ گردانا جائے تو کیا اس کو محض اتفاقی حادثہ سمجھا جائے۔ عسکری ترجمان کی جانب سے میرے گزشتہ برس 28اپریل کےکالم بعنوان ’’جمہوریت کو جمہوریت سے ہی خطرہ ہے؟‘‘ کےالفاظ کی ادائیگی باعث حیرت نہیں تاہم اس بیان نےسیاسی وجمہوری نظام کی مضبوطی اور عوامی پذیرائی کے دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، بظاہر اس نظام کو کوئی ختم کرنا چاہتا ہے نہ برباد لیکن جب منتخب نمائندے اپنے پائوں پر خود کلہاڑا مارنے کے درپے ہوں، تو پھر کسی اور سے شکایت کو محض مذاق اور اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں تو اور کیا سمجھا جائے؟ موجودہ حالات پتہ دے رہے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری کے خاتمے اور بہتری کا راستہ تلاش کرنےکی بجائے اقتدار کی ہوس نے حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے، اپوزیشن نما حکمراں ن لیگ ہو، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف کوئی اس ایک دوسرے کو کوئی رعایت دینے کو تیارنہیں ،پی پی پی اور پی ٹی آئی تو فوری عام انتخابات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، اگر اس راز کی تلاش میں پرانی راکھ کریدیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی بعض اہم وزیروں سمیت بڑی جماعتوں کے مختلف رہنما کسی بھی قسم کی جمہوری یا غیرجمہوری سیاسی بساط کا مہرہ بننے کو بےچین ہیں، وزیر بنیں یا مشیر، ِفیل بنیں یا پیادہ، پہلے کی طرح انہیں حب الوطنی کا بیج سینے پر سجانا ہے اور یہی لوگ ہربار اقتدارمیں ہونے کے باوجود جمہوری نظام کی بہتری و مضبوطی کی بجائے تباہی کاسبب بنتےہیں۔
حالات کی نزاکت کا ایک اہم پہلو امریکہ کی نئی جنوبی ایشیائی پالیسی بھی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں مبینہ دہشت گرد گروپوں اور ان کے ٹھکانوں پرڈرون حملوں سمیت براہ راست کارروائیوں کا امریکی فیصلہ انتہائی خطرناک ہے، ایسے میں مضبوط سیاسی قیادت کا فقدان نئے سنگین ترین بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا ہم ماضی میں پہلے بھی تین مرتبہ شکار ہوچکے ہیں۔ سیاسی تدبر کی کمی ناقابل فہم حد تک بڑے سیاسی خلا کو جنم دے سکتی ہے جس کےمضر خطرات کا خمیازہ پھر عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
حالات بدل بھی سکتےہیں، میری معلومات کے مطابق نوازشریف کا لندن وطن واپسی سے پہلے دورہ سعودی عرب کا فیصلہ کرنا بہت اہم ہے، کہا جارہا ہے کہ جہاں ایک اہم ملاقات میں موجودہ مشکل صورت حال سے چھٹکارے کے لئے پرانی محبت شاید ریفرنس تو بنےگی تاہم ماضی کے برعکس ’’گارنٹرز‘‘ کی عدم دستیابی کےباعث کوئی رعایت ملنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا سعی لاحاصل کے بعد میاں صاحب کو وطن واپس آکر نیب کیسز اور حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم کرنا ہوگا اپنے اور وطن عزیز کےسیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کن اہم قدم بھی اٹھانا پڑے گا۔ ایک اچھا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب سیاسی قیادت کے ساتھ مل بیٹھنے کا وسیلہ پیدا کریں جو حالات کو ان کے حق میں تبدیل کرنے اور ملک کو مشکلات سےنکالنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے، قومی اداروں سے محاذ آرائی کی حکمت عملی تبدیل کرنا خاندان و پارٹی کو متحد رکھنے کی سبیل اور بہترین سیاسی چال ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ ذرائع بتارہے ہیں کہ اب ان کے منہ بولے بھائی کوبے نظیربھٹو کےقتل کے الزام کی صورت دھرنے کا خمیازہ بھگتنے کا وقت بھی آن پہنچا ہے، نئی صورت حال کے واحد بینفشری مسٹر خان ہوسکتے ہیں اور اسی لئے انہیں بھرپور انداز میں سندھ کو ٹارگٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
قارئین کرام، تلخ زمینی حقائق کا سامنا کرنے میں ہی عافیت اور بہتری کاراستہ پنہاں ہے،وطن عزیز کو درپیش تاریخ کے مشکل ترین حالات میں بھی اگر قومی قیادت خبردار نہ ہوئی تو یقین رکھیں کہ حالات و انتظامات تو مکمل کئے جاچکے ہیں، اندرون وبیرون ملک سےماہرین سے مسلسل مشاورت کاعمل جاری ہے، ماضی کی طرح ابتر معاشی صورت حال ، کمزور خارجہ پالیسی اور میگا کرپشن کےالزامات پہلے ہی ثبوتوں کی بند گلی میں دھکیلے جاچکے ہیں لہٰذا غیرمعمولی ایکشن کا نشانہ بننے کی بجائے ہوش کے ناخن لینا ہی جمہوریت کی بقا کا قابل عزت راستہ ہے، ورنہ آپ تو نکالے ہی جا چکے،اب آپ کی انا کی تسکین میں سیاسی و جمہوری نظام کادھڑن تختہ نہ ہوجائے، پھر کسی کے پاس بھی بہتری کے اقدامات کی بجائے صرف لمبے انتظار کا آپشن ہی بچےگا۔

تازہ ترین