اسلام آباد ( عثمان منظور ) سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس اس قدر جلد بازی میں دائر کیا گیا کہ نیب تفتیش کاروں نے بینک افسران کی پیش کردہ دستاویزات کو بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی بینک افسران جو اب استغاثہ کے گواہ ہیں ، انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، دستخط کیے یا پھر جس مقصد کے لیے وہ عدالت میں پیش ہو ئے اس کے ریکارڈکی تیاری کی ۔ا حتساب عدالت میں اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران سینئر وکیل خواجہ محمد حارث نے یہ واضح کرنےکی کوشش کی کہ نیب تفتیشی افسر کے سامنے اسحاق ڈار کی مشکوک اور فرضی بینک سمریاں پیش کی گئی ہیں بجائے اس کے کہ ان سمریوںکو اصل ریکارڈ سے میچ کیا جاتا ، تفتیشی بیورو وزیر خزانہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں جلدی میں دکھائی دیے ، پاناما فیصلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر نیب نے اپنی ظاہر کردہ آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کیا ،اب تک نیب نے احتساب عدالت میں جتنے بھی گواہ پیش کیے ہیں انہوں نے عدالت کے سامنے یا تو عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات تیار نہ کرنے یا پھر ان کا مطالعہ نہ کرنےاعتراف کیا ہے ۔ پیر کو ہونے والی سماعت ڈار کے خلاف ہونے والی دوسری سماعت سے چنداں مختلف نہ تھی ۔الائیڈ بینک کے عبدا لرحمان گوندل اور حبیب بینک کے مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ نیب تحقیقاتی افسر نے اصل ریکارڈ کا مطالبہ نہیں کیا، اور ان کی سمریوں پر ہی انحصار کیا جو اس کو دی گئی تھیں ، ڈار کے وکیل نے گوندل سے کلیئرنگ اور ٹرانسفر ٹرانزیکشن میں موجود تضاد کے بارے میں سوال کیا ، تو بینکر نے جواب دیا کہ کلیئرنگ انٹر بینک ٹرانزیکشن اورٹرانسفر کی اصطلاح انٹرا بینک ٹرانزیکشن کے لیے ا ستعمال کی جاتی ہے ۔ پھر الائیڈ بینک کے نمائندے سے کہا گیا کہ وہ اپنی سمری پڑھے ،اس میں کلیئرنگ ٹرانزیکشن ٹرانسفر کے کالم میں درج تھیں جس نے کاغذات کو مشکوک بنا دیا۔ خواجہ حارث نے گواہ سے کہا کہ کسی ایک موقع پر بھی ایک بھی اس کی تیار کردہ سمری کلیئرنگ ٹرانزیکشن کا چیک نمبر اکائونٹس کی سٹیٹ منٹ سے مخلتف نہیں ،گواہ نے جواب دیاکہ اس نے چیک نمبر کے بجائے ڈیپازٹ سلپ نمبر لکھا ہے اس پر خواجہ حارث نے اسے کالم کا ٹائٹل پڑھنے کا کہا، جس میں خاص طو رپر پڑھا کہ ’’ چیک نہیں‘‘ خواجہ حارث نے کہا کہ اس طرح کوئی چیک نمبر کے عنوان کے نیچے ڈیپازٹ سلپ نمبر نہیں لکھ سکتا اس کے بعد انہوں نے سارے اصل ریکارڈ کا مطالبہ کیا جس کی عدالت نے اجازت دے دی ۔خواجہ حارث نے گواہ کو مجبور کر دیا کہ وہ ا عتراف کرے کہ نیب تفتیش کاروں نے بینک کے اصل ریکارڈ کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ، گواہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ بینک دستاویزات پر دستخط بھی موجود نہیں ۔