جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی صدر، نوابزادہ طلال بگتی کی زیر صدارت، کوئٹہ میں منعقد ہونے والی علماء مشائخ اور سیاسی راہنماؤں کی ایک کانفرنس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو قرآن پاک کی بے حرمتی، لال مسجد آپریشن کے دوران سینکڑوں طلبہ و طالبات اور نواب اکبر بگتی سمیت ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں واجب القتل قرار دیا ہے۔ کانفرنس میں جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام (ف) جمعیت العلمائے اسلام (س) جمعیت العلمائے اسلام (نظریاتی) شیعہ علماء کونسل، تنظیم اسلامی، وحدت المسلمین، سادات علماء و مشائخ تنظیم، تحریک انصاف کے نمائندوں اور کئی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیئے میں مشرف کے جرائم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے، اسے قومی مجرم قرار دیا گیا۔ نواب زادہ طلال بگتی نے اعلان کیا کہ پرویز مشرف کو قتل کرنے والے کو تیرہ لاکھ ڈالر انعام دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”علماء کے فتوے کے بعد اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مشرف کا تعاقب کرتے ہوئے اس کا سر قلم کردے۔ اس سے قبل طلال بگتی نے ہی ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مشرف کو قتل کرنے والا شخص ایک ارب روپے کی زمین کا حقدار ٹھہرے گا۔ تب مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار یعقوب ناصر ان کے پہلو میں جلوہ گر تھے۔
کیا یہ واقعی ”فتویٰ“ ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی شرعی نوعیت و حیثیت پر علمائے کرام اور فقہائے عظام ہی کوئی مستند رائے دے سکتے ہیں۔ بادی النظر میں کسی بھی پاکستانی شہری کو یوں واجب القتل قرار دے کر صلائے عام دینا کہ جو چاہے اس کی گردن اڑا کر بھاری انعام پائے، قرین انصاف نہیں لگتا۔ تمام تر کمزوریوں کے باوجود پاکستان آئینی و قانونی نظم رکھنے والی ریاست ہے۔ اس کا ایک نظام عدل و انصاف ہے۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص، مروجہ قانونی و عدالتی عمل سے گزر کر ہی جزا و سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ تسلیم کہ مصلحتوں میں جکڑی انتظامیہ، قانون کی پاسداری کا پختہ عزم نہیں رکھتی، بجا کہ ہمارے قانونی نظام میں سو سو طرح کے پیچ و خم ہیں، برحق کہ انصاف کی راہیں بھی مستقیم و ہموار نہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہمیں بہرحال ریاستی نظم کے دائرے کے اندر ہی رہنا ہے۔ جنگلوں کی وحشتیں انسانی بستیوں کی تہذیب میں ڈھل کر ہی زندگی کا وہ ہنر سیکھتی ہیں جو غصے، انتقام، اشتعال اور غیظ و غضب جیسے منہ زور جذبوں کو صبر، ضبط، تحمل اور برداشت کی شائستگی دیتا ہے۔ اگر ہر شخص کو یہ چھوٹ مل جائے کہ وہ اپنے انداز سے اپنے زخموں کی مرہم کاری کرنے لگے۔ خود ہی قاتل کا تعین کرکے اسے مرضی کی سزا سنا دے تو بستیاں جنگل بن کے رہ جاتی ہیں۔ کوئی مہذب ملک اس امر کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کوئی فرد یا چند افراد کا کوئی گروہ مخالفین کے سروں کی قیمتیں لگاتا اور خلق خدا کو دعوت قتل دیتا پھرے۔ یہ پرلے درجے کی انارکی اور فساد کا راستہ ہے۔
مشرف کے عہد سیاہ کار نے برہنہ لاقانونیت اور شرمناک آئین شکنی کی کوکھ سے جنم لیا۔ ایوب ، یحییٰ اور ضیاء کے مارشل لاؤں نے کسی نہ کسی جھوٹے سچے محرک کو اپنا جواز بنایا۔ مشرف ہماری بے مایہ تاریخ کا واحد ڈکٹیٹر تھا جس نے اپنی نوکری بچانے کے لئے پورے نظام کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ اس کا یہ قول تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ ”اگر نواز شریف مجھے معزول نہ کرتا تو آج بھی وزیر اعظم ہوتا۔“ بلا شبہ اس کا عہد حکمرانی پہلے دن سے لے کر گارڈ آف آنر کے آخری لمحے تک کسی مرد کامل کی بد دعا کا رنگ لئے ہوئے تھا۔ اس شخص نے پاکستان ہی کو بے لباس نہیں کیا، اہل پاکستان کے دلوں میں بھی ایسے چرکے لگائے کہ اب تک لہو رس رہا ہے۔ طلال بگتی کے والد اکبر بگتی کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ مشرف اس سے پہلے وارننگ دے چکا تھا کہ ”تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کس چیز نے ہٹ کیا ہے۔“ غالباً یہ جملہ اس نے ایسے وقت میں کہا تھا جب اسے ڈرونز اور ہلاکت آفریں امریکی ٹیکنالوجی کے بارے میں بریفننگ دی جاچکی تھی۔ اس نے قتل ہی پر اکتفا نہ کیا، اس مرد طرحدار کی لاش کی توہین کی۔ اس کی عینک پر رینگتے کیڑے اور تدفین کے شرمناک مناظر براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھائے۔ یہ سب کچھ بیمار ذہنیت کے حامل کسی سفاک دل و دماغ میں ہی سما سکتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بلوچستان اس دن سے آتش زیر پا ہے۔ جو کچھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہوا، اس کی نظیر انگریزی سامراج کی سوسالہ تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ دختر فروشی سے وطن فروشی تک وہ کون سا داغ ہے جو اس کے ماتھے پہ چسپاں نہیں۔ وہ وطن عزیز کو ایک ایسی آگ میں جھونک گیا کہ الاؤ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آرہا۔ یہ آگ اب صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی بارگاہوں تک آن پہنچی ہے جو زندگی بھر امن و سلامتی کا درس دیتے، محبتیں بانٹتے اور آسودگیاں عطا کرتے رہے۔ اس نے پاکستان کو عالمی اوباشوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا۔ محض شخصی اقتدار کے لئے وہ ملک کو ایسی فولادی زنجیروں میں جکڑ گیا کہ ہم تڑپنے پھڑکنے کو بھی ”اسٹریٹجک ڈائیلاگ“ سمجھ کر اپنے آپ کو فریب دینے پر مجبور ہیں۔ مشرف کو ایک ایک جرم کی سزا ملنی چاہئے۔ عدالت عظمیٰ پہلے ہی اسے غدار اور غاصب قرار دے چکی ہے حال ہی میں سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ”سپریم کورٹ مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت غاصب قرار دے چکی ہے۔ اس کے خلاف مقدمہ قائم کرنا، انتظامیہ کا کام ہے“ یہ مقدمہ قائم ہونا چاہئے۔ دیگر مقدمات کے دفتر بھی کھلنے چاہئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے قتل سے دو دن پہلے کی تحریر میں کہہ گئی تھیں کہ ”مجھے کچھ ہوگیا تو ذمہ داری مشرف پہ عائد ہوگی“ اگر بے نظیر لاوارث نہیں تو یہ تحقیق بھی ہونی چاہئے۔ ریڈوارنٹ جاری کرکے اسے انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لایا اور تحقیق و تفتیش کی بھٹی سے گزارا جانا چاہئے۔
لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے مروجہ نظام قانون و انصاف کے مطابق ہونا چاہئے۔ مجھ سے زیادہ، مشرف کا تعاقب شاید ہی کسی دوسرے اخبار نویس نے کیا ہو۔ میں اسے بد بختی کا آسیب خیال کرتا ہوں جو جانے نحوست کے کن غاروں سے نکلا اور پاکستان پر مسلط ہوگیا۔ لیکن میں ہر گز نہیں چاہوں گا کہ اس کے سر کی قیمت مقرر کی جائے اور اسے قتل کردیا جائے۔ اس نے دوسروں کو قتل کیا تو بھی اسے قانونی تحفظ ملنا چاہئے۔ اس نے اپنے سیاسی مخالفین کو بزور وطن واپس آنے سے روکا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود انہیں دوبارہ جدہ بھیج دیا لیکن اس کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایک پاکستانی کے طور پر اسے واپس آنے کا حق دیا جانا چاہئے کہ اس کا وطن ہے۔ اس نے عدالتوں کو جکڑ کر اپنی مرضی کے فیصلے لئے لیکن اب عدالتوں پہ لازم ہے کہ وہ ہر کدورت سے پاک رہتے ہوئے اس کے ساتھ انصاف کریں۔ نو برس تک آئین و قانون سے کھیلنے والے شخص کو بھی یہ حق دیا جانا چاہئے کہ وہ پوری آزادی سے اپنا دفاع کرے۔ وہ مجرم ثابت ہو تو نمونہ عبرت بنا دیا جائے، نہ ہو تو با عزت شہری کے طور پر اپنے وطن میں رہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ مشرف کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرتے ہوئے قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ بظاہر سرتاپا جرائم میں لتھڑے ہوئے شخص کا تحفظ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نوع کے فتوؤں اور اعلامیوں کا نوٹس لے۔ کسی بھی مقتول یا مظلوم کے ورثاء کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی مبینہ قاتل یا ظالم کو خود ہی مجرم قرار دے کر فوری سزا سنا دیں اور اس کی گردن اڑانے کا انعام مقرر کرنے لگیں… چاہے اس ملزم کا نام پرویز مشرف ہی کیوں نہ ہوں۔