اسلام آباد+کلر سیداں(نمائندہ خصوصی+ نمائندہ جنگ)سابق وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سرکردہ رہنماچوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ہوسکتا ہے،تضحیک کی اجازت نہیں،حکومت کا بھارت سے دوستیاں بڑھانا، سابق سربراہ آئی ایس آئی کاسابق چیف’’را‘‘ سے ملنا اچھا نہیں لگا،نواز شریف اور میں نے پارٹی کی ایک ایک اینٹ رکھی تھی۔ اعلیٰ عدالتوں پر تنقید کی پالیسی سے اختلاف ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنانا نواز شریف اور پارٹی کے حق میں نہیں، میں نے پارٹی کے اندر اختلاف کیا، اختلاف رائے جمہوریت کا حصہ ہے۔ حکومت کا بھارت کے ساتھ دوستیاں بڑھانا اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا’’را‘‘ کے سابق چیف سے بغل گیر ہونا اچھا نہیں لگا۔
مودی سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قوم، حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں نے یکمشت ہوکر پیغام دیا کہ ہم سے عزت سے بات کرو اور عزت لو، ہم مزید پاکستان کی جگ ہنسائی قبول نہیں کریں گے، یہ وہ پیغام تھا جس سے پاک امریکا تعلقات میں ٹھہرائؤ آیا، اب حکومت کا فرض ہے اس اتحاد و اتفاق پر قائم رکھے، پارلیمنٹ اور تمام ادارے ساتھ دیں، آپ اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو یقین ہے ملک کے خلاف عزائم اپنی موت خود مر جائیں گے۔کلرسیداں میں میڈیا سے گفتگو میں (ن) لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مودی کے دور حکومت میں پاکستان کو بھارت سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس شخص کا ایجنڈ اسلام اور پاکستان دشمنی ہو اس سے خیر کی توقع کیے جانا ہی خودکو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کے گھر جلائے جارہے ہیں، ان کو نیست و نابود کیا جارہا ہو اور عین اس موقع پر دنیا جہاں مذمت کررہی ہے وہاں بھارت کا وزیراعظم اظہاریکجہتی کرنے میانمار جاپہنچا۔
ہمیں کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنی قوت اور بازو پر یقین ہونا چاہئے۔چوہدری نثار علی نے کہا کہ میرےنزدیک مال و دولت نہیں کردارکی وقعت ہوتی ہے۔ میں نے مناسب سمجھا وزارت میں نہیں بیٹھوں گا، عہدے اور حکومتیں آنی جانی چیزیں ہیں، کوشش کرتا ہوں ایسا کام نہ کروں جو کوئی میرے کردار پر انگلی اٹھا سکے۔ہماری پارٹی کے کسی شخص کوسپریم کورٹ کے فیصلے کی تضحیک نہیں کرنی چاہیے، عدلیہ کے فیصلے سے اختلاف اوراپیل کی اجازت ہے، تضحیک کی نہیں، تنقید ضرور کریں لیکن تضحیک کریں گے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا نواز شریف کو سپریم کورٹ سے انصاف نہیں لینا؟سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ میں اختلاف رائے ضرور ہے لیکن کوئی تقسیم نہیں، تجزیہ کار پارٹی میں اختلاف رائے کو بہت بڑا بحران بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک یا دھڑے بندی نہیں البتہ اختلاف رائے جمہوریت کی بنیاد ہے۔جو بھی پالیسی بنے گی وہ (ن) لیگ اور ملک کے بہترین مفاد کے لیے بنے گی، مخالفین دیکھتے رہیں گے کہ (ن) لیگ اگلے الیکشن میں متفق اتحاد اور اتفاق کے ساتھ میدان میں اترے گی۔سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہوں گا کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آئی، البتہ وقتی طور پر کچھ ٹھہرائؤ ضرور آیا ہے اور یہ ٹھہرائؤ کینیڈین فیملی کے بازیاب ہونے سے نہیں آیا، کینیڈین فیملی کے بازیاب ہونے پر تعریفوں کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس سے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں گونگا، بہرہ ہو کر نہیں بیٹھتا، ڈنکے کی چوٹ پر بات کرتا ہوں،منفی سوچ کا میں کچھ نہیں کر سکتا،مخالفین کو اپنی سیاست پر توجہ دینی چاہیے،حلقے کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ حلقے کا مقابلہ پورے ملک میں کسی وزیر، گورنر، وزیراعلیٰ کے حلقے سے کرلیں، اگر آپ کا حلقہ سرفہرست نہ ہو تو مجھے ووٹ نہ دیں۔وزارت اس لئے واپس نہیں کی تھی کہ شدید اختلاف تھا۔میں نے روایت ڈالی ہے کہ سب لوگوں کو فنڈز دیتا ہوں، حتیٰ کہ مخالفین کے کام بھی کرتا ہوں، جس پر میرے دوست بھی ناراض ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوام دو نمبر لوگوں کو ووٹ نہ دیں،میں وہ واحد شخص ہوں جس نے بڑی وزارت لینے سے خود انکار کیا، میں نے اپنی پارٹی کے اندر اختلاف رائے کیا، وزارت لے کر بھی اختلاف رائے کر سکتا تھا لیکن میں نے وزارت ٹھکرا کر اختلاف رائے کیا۔