• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایبٹ یا پرویز مشرف ،بش....آن دا ریکارڈ …جبار مرزا

پاکستان کے سابقہ عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف کے ہم مشرب و ہم صفیر امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش بھی خیر سے ”صاحب کتاب“ہو گئے ہیں۔DECISION POINT کے نام سے انہوں نے اپنی یادداشتوں کی مجتمع کیا ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان اکثر پشتو کی ایک کہاوت سنایا کرتے تھے کہ ”چوروں کی دوستی ہمیشہ مال غنیمت کی تقسیم پر ٹوٹتی ہے“ ۔ جنرل پرویز مشرف اور جارج ڈبلیو بش کی بہت سے معاملات میں ہم آہنگی تھی،یارانہ تھا، دوستی تھی لیکن آج کل وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے نشانے لے رہے ہیں۔کئی بار پرویز مشرف، جارج ڈبلیو بش پر تنقید کر چکے ہیں جبکہ بش نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پرویز مشرف نے وعدے پورے نہیں کئے۔ بش نے انکشاف بھی کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو لینے کے لئے پاکستان کو بھاری قیمت دیتے رہے ہیں“۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی قیمت کن لوگوں کے حوالے کی گئی تھی یا وہ رقم کس مد میں جمع ہوتی رہی۔ اس روپے کا تصرف کیا تھا۔ بدلے میں وہ کون لوگ تھے جو امریکہ کو فروخت کئے گئے۔ بہرطور جارج بش کی کتاب کی اشاعت اس کی نیک نامی کا باعث نہ بن سکی۔ امریکی قوم کو جب بش کا اصلی چہرہ دکھائی دیا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹیکساس کی سڑکیں بلاک کر دی گئیں، احتجاجی مظاہرے، نعرہ بازی اور جارج ڈبلیو بش کے ٹرائل کے مطالبے شروع ہو گئے۔ حیرت ہے جنرل پرویز مشرف اور جارج ڈبلیو بش دونوں اپنی اپنی کتاب کی اشاعت پر نہ صرف اپنی قوم کے سامنے بے نقاب ہوئے بلکہ بے توقیر بھی ہو گئے۔”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگانے والا پرویز مشرف جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا،اب یورپ میں ڈرتا پھرتا ہے اور DECISION POINT کا مصنف گھر میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
میں میجر جیمس ایبٹ کی خدمات اور کارگزاری پر غور کر رہا تھا جو 1849ء سے 1852ء تک ہزارہ کا پہلا ڈپٹی کمشنر تھا۔ جس کے نام سے آج بھی ایبٹ آباد نامی شہر موجود ہے۔ جب ایبٹ کا تبادلہ ہوا تو ہزارہ کے لوگوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ، بعضوں نے کئی دن تک کھانا نہیں کھایا ۔ بادل نخواستہ جب ایبٹ کو الوداع کہنا ہی پڑا تو پھر ہزاروں لاکھوں کے ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں لوگ حسن ابدال تک پیدل ایبٹ کو چھوڑنے آئے تھے۔ اقتدار گھر تک ہو، گلی محلہ، شہر ، صوبہ یا ملک تک وہ عزت و ناموس کا باعث ہونا چاہئے۔ لوگوں پر نہیں دلوں پر راج ہونا چاہئے تاکہ بچھڑ جانے یا چلے جانے کی صورت میں لوگ یاد کریں۔لیکن جارج ڈبلیو بش اور جنرل پرویز مشرف دو ایسے دوست ہیں کہ اقتدار سے اتر جانے کے بعد بھی ان کا جوتوں سے سواگت ہوتا رہتا ہے۔ دونوں کی زندگی میں یکسوئی اور عافیت نہیں رہی۔ بے چینی اور دربدری ان کا نصیب بن چکا ہے۔ دھتکار ان کی شناخت ہوتی جا رہی ہے، ایسی آسودگی کس کام کی جس میں طمانیت نہ ہو۔
مقتدر حلقے ان دونوں کرداروں کو عبرت جانیں۔ آنے والے کل کو سنوارنے کے لئے آج سے سوچنا پڑتا ہے۔ اب یہ کسی بھی صاحب بست و کشاد پر منحصر ہے کہ وہ ایبٹ کی طرح طمطراق وحشم سے رخصت ہونا پسند کرتا ہے یا جنرل پرویز مشرف اور جارج ڈبلیو بش کی طرح رسوائیوں کی گھاٹی اترنا چاہتا ہے۔
تازہ ترین