• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طنز اور غصے کے امتزاج نے اس کے لہجے کو بہت زہریلا بنادیا تھا۔ وہ انتہائی زہرناک انداز میں گفتگو نہیں بلکہ خطاب فرما رہا تھا اور اس خطاب کا ہدف وہ تمام سیاستدان، دانشور اور لکھاری تھے جو پاکستان کے مستقبل کو روشن قرار دیتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اصل حقیقت مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ 2010ء میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکے اور خودکش حملے پاکستان میں ہوئے، کرپشن کا یہ عالم ہے کہ تم لوگوں نے حاجیوں کو بھی نہ بخشا اور اب ستم یہ ہے کہ تم سب کے سب ٹیکس ادا کرنے سے بھاگ رہے ہو، نواز شریف اور الطاف حسین کے ساتھ مل کر پوری قوم کو ٹیکس چور بنا رہے ہو، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اگر ہم نے ریفارمڈ جنرل ٹیکس عائد نہ کیا تو آئی ایم ایف پاکستان کی امداد بند کردے گا اور اگر آئی ایم ایف نے امداد بند کردی تو پاکستان کی معیشت برباد ہوجائے گی، ایسے حالات میں تم پاکستان کے مستقبل کو روشن کیسے قرار دیتے ہو؟ تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو کہ دو تین سال میں ایک سنہری دور شروع ہوجائے گا؟
مایوسیوں کے علمبردار دانشور دوست کا خطاب سننے کے بعد میں نے اسے یاد دلایا کہ پچھلے سال مارچ 2009ء میں امریکی حکومت کے ایک فوجی مشیر ڈیوڈ کیلکولن نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان ستمبر 2009ء تک ٹوٹ جائے گا۔ ہلیری کلنٹن شور مچا رہی تھی کہ اسلام آباد پر طالبان کا قبضہ ہونے والا ہے یقیناً مسائل بہت تھے لیکن 2009ء گزر گیا اور پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قائم رہا، 2010ء میں پاکستان کو حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس میں آدھا پاکستان ڈوب گیا، افسوس کا مقام تھا کہ جب پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا ہمارا صدر فرانس اور برطانیہ میں گھوم رہا تھا لیکن اس کے باوجود قوم نے مل جل کر اس آفت کا مقابلہ بھی کرلیا اور 2010ء بھی گزر چکا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج پاکستان کو مہنگائی، کرپشن اور دہشت گردی جیسے خوفناک مسائل کا سامنا ہے، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث کراچی میں آئے دن صنعتی یونٹ بند ہو رہے ہیں لیکن کیا دنیا کی دیگر قوموں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہے؟اگر حاجیوں کو لوٹا گیا ہے تو کیا وزیر مذہبی امور کو سپریم کورٹ میں پیش ہو کر جواب نہیں دینا پڑا، کیا اسے قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنی بے گناہی کا یقین نہیں دلانا پڑا، کیا حج اسکینڈل میں وزیر اعظم کی قربت کے دعویدار بیوروکریٹ حضرات کو جیل کی ہوا نہیں کھانی پڑی؟ کیا رینٹل پاور پلانٹس میں قوم کو لوٹنے والے سپریم کورٹ اور میڈیا میں بے نقاب نہیں ہوئے؟ کیا سیاستدانوں اور جرنیلوں کے منظور نظر لٹیروں کو ایک ہی دن میں دو ارب روپے واپس نہیں کرنے پڑے؟
ماضی میں اس ملک کے طاقتور خفیہ ادارے کسی کے سامنے جوابدہ نہ تھے لیکن پہلی دفعہ ان خفیہ اداروں کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ کچھ لاپتہ افراد ان کی تحویل میں ہیں تو کیا یہ مثبت پیش رفت نہیں ہے؟ یہ درست ہے کہ لوگوں نے قومی بچت اسکیموں سے اربوں روپے نکال لئے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ پاکستان پر عوام کی اکثریت کا اعتماد بدستور قائم ہے۔
حکومت پر غصّے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہونا چاہئے کہ ہم پاکستان کی ایسی تیسی کرنے لگیں۔ آج بھی پاکستان دنیا کے کئی ممالک سے بہت بہتر ہے لیکن ہمیں قانون کی بالادستی اور گڈ گورننس کے ذریعہ پاکستان کو مزید بہتر بنانا ہے۔ نواز شریف اور الطاف حسین ریفارمڈ سیلز ٹیکس کی مخالفت اس لئے کررہے ہیں کہ اس نئے ٹیکس کے نفاذ سے غریبوں پر بوجھ میں اضافہ ہوگا، وہ کہتے ہیں کہ نئے ٹیکس لگانے کی بجائے کرپشن ختم کرو، ان دونوں لیڈروں کا آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا دراصل امید کی کرن ہے اور پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ وہ دور گیا جب امریکا، آئی ایم ایف اور عالمی بینک ہماری تقدیر کے مالک تھے۔ آج پاکستانی قوم چین، ترکی اور ایران کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اگر ایران کی معیشت امریکا کے بغیر ترقی کرسکتی ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ایران کے پاس تیل کی دولت ہے پاکستان کے پاس کچھ نہیں؟
غور کیا جائے تو جتنی دولت پاکستان کے پاس ہے اس خطے کے کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع تیل کے ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ کوہاٹ، بنوں اور کرک سے لیکر شمالی وزیرستان تک تیل کے بہت سے ذخائر ہیں اور انہی ذخائر پر عالمی طاقتوں کی نظر ہے، اس لئے ان علاقوں میں بدامنی پھیلائی جارہی ہے تاکہ دہشت گردی کی جنگ کے نام پر ان علاقوں پر کنٹرول قائم کرلیا جائے۔ بلوچستان میں آبادی کم اور رقبہ زیادہ ہے لیکن اس رقبے میں بیش بہا معدنی ذخائر ہیں۔ گیس، سونے اور تانبے کے علاوہ بلوچستان میں 240 اقسام کا ماربل موجود ہے۔ صرف ماربل انڈسٹری کو فروغ دے کر ڈیڑھ لاکھ افراد کو روزگار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں گوادر کی بندرگار بلوچوں کی بے روزگاری ختم کرسکتی ہے لیکن صوبے کی کرپٹ اور نااہل حکومت بلوچوں کی بجائے اسلام آباد کی خوشنودی میں مصروف رہتی ہے۔ قصور کرپٹ حکمرانوں کا ہے پاکستان کا نہیں۔
سندھ میں تھر کا علاقہ کوئلے کے ذخائر سے بھرا پڑا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند تھر کول پراجیکٹ کی نگرانی کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انہیں فوری طور پر گیس ٹربائنز فراہم کردی جائیں تو 2011ء میں وہ کوئلے سے گیس اور بجلی بنانی شروع کردیں گے اور 500 سال تک 50 ہزار میگا واٹ بجلی سالانہ پیدا ہوسکے گی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اس منصوبے سے وابستہ رہے تو صرف ایک سال میں بجلی کی پیداوار بڑھ جائے گی اور بجلی سستی ہو جائے گی لہٰذا رینٹل پاور پلانٹس کے ذریعہ عوام کو لوٹنے والی مافیا ان کے خلاف سرگرم ہوچکی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دسمبر 2010ء کے بعد وہ تھرکول پراجیکٹ سے فارغ ہوجائیں۔اگر تھر کول پراجیکٹ کامیاب ہوتا ہے تو صرف سندھ نہیں پورا پاکستان ترقی کرے گا۔ کیونکہ توانائی کا بحران ختم ہوجائے گا اور پنجاب اتنی زیادہ گندم، چاول اور کپاس پیدا کرے گا کہ نہ صرف روٹی بلکہ کپڑا بھی سستا ہوجائے گا۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہماری افرادی قوت ہے۔
17/کروڑ کی آبادی میں 67 فیصد نوجوان ہیں۔ اس 17/کروڑ میں سے 3/کروڑ افراد کا تعلق چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والی مڈل کلاس سے ہے، ان میں سے ڈھائی کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ 10/کروڑ سے زائد پاکستانی موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم تعلیم کی طرف توجہ دیں، عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی حوصلہ افزائی کریں اور ساتھ ہی ساتھ قانون کی بالادستی قائم کردیں تو جمہوریت کی سب خامیاں بھی دور ہوجائیں گی اور انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔ میرا دانشور دوست مبہوت ہو کر میری باتیں سن رہا تھا۔ میں خاموش ہوا تو اس نے اپنی عینک اتاری اور شیشہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہاں تم درست کہتے ہو کہ قصور پاکستان کا نہیں حکمرانوں کا ہے لیکن کیا وقت نہیں آگیا کہ یا تو ہم ان حکمرانوں سے جان چھڑا لیں یا یہ حکمران ہماری جان چھوڑ دیں؟
تازہ ترین