افغانستان پر سراسر ناجائز حملے کے نتائج جیسے جیسے سامنے آرہے ہیں، سپر پاور کا یہ واویلا بھی بلند ہوتا جارہا ہے کہ اس کی ذمہ داری پاکستان پر ہے۔ صدر اوباما اور امریکہ کی عسکری قیادت کا سارا زور اب اسی نکتے پر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جنگ پاکستان کو لڑنی چاہیے اور اگر پاکستان رضاکارانہ طور پر ایسا نہ کرے تو اسے اس پر مجبور کیا جانا چاہیے۔ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کا جو جائزہ پچھلے دنوں صدر اوباما نے پیش کیا، اس کا بنیادی نکتہ یہی تھا۔ سابق امریکی جنرل جیک کین نے یہی بات زیادہ کھردرے الفاظ میں کہی۔ نیویارک سے شائع ہونے والے ایک بڑے امریکی اخبار نے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کو پاکستانی حدود کے اندر تک وسعت دے گا۔خبر کے مطابق ئامریکہ کی اسپیشل آپریشنز فورسز امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والی طاقتوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے کارروائیوں کی تیاری کررہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نو سال تک افغانستان میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کی فوجوں کا خاک نشین افغان عوام کی مزاحمت کو توڑنے میں ناکام رہنا پاکستان کا قصور کیسے ہوسکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کے اس وقت کے بہادر کمانڈو سربراہ نے تو افغان بھائیوں کے جرم کا کوئی ثبوت حاصل کیے بغیر واشنگٹن کی ایک ٹیلی فون کال پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے ان کے خلاف فوج کشی کے لیے پاکستان کے ہوائی اڈے اور بندرگاہیں سپر پاور کی خدمت میں پیش کردی تھیں ۔ اس کے بعد جب حکم دیا گیا کہ ملک کے جن قبائلی علاقوں سے افغان عوام کی تحریک مزاحمت میں تعاون کیا جارہا ہے، وہاں پاکستانی فوج کارروائی کرے تو اس حکم کی تعمیل میں بھی پس و پیش نہیں کیا گیا۔پھر جب آقائے ولی نعمت کی اس پر بھی تسلی نہ ہوئی اور کہا گیا کہ مابدولت خود بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کے ذریعے قبائلی علاقوں میں موت کے تحفے بانٹناچاہتے ہیں تو ہمارے محب وطن حکمرانوں نے پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کی خاطر اس حکم پر بھی لبیک کہا جبکہ خود امریکی ذرائع کے مطابق موت کے اس کھیل میں بچوں اور عورتوں سمیت 98 فی صد عام پاکستانی شہری نشانہ بن رہے ہیں ۔ کچھ دن تک قوم کو دکھانے کے لیے ڈرون حملوں پر احتجاج کا ڈرامہ رچایا جاتا رہا، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر اس کے خلاف قرارداد بھی منظور کی، مگر اب یہ تکلفات بھی ختم ہوگئے ہیں ، اور وکی لیکس نے عوامی نمائندوں پر مشتمل موجودہ منتخب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی جانب سے امریکی حکام کے سامنے کہی گئی یہ باتیں بھی کھول دی ہیں کہ ڈرون حملوں میں عام پاکستانیوں کے جانی و مالی نقصان پر امریکہ کو تشویش ہو تو ہو ہمیں کوئی پروا نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی اس تابعداری کے باوجود امریکہ کی جانب سے اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششیں کھلے فریب کے سوا کچھ نہیں۔
امریکی موقف کے مطابق اگر مزاحمت کار یہ جنگ پاکستان کے اندر اپنے محفوظ ٹھکانوں سے لڑ رہے ہیں تو امریکی اور نیٹو افواج، سرحدوں پر ان کی آمد و رفت روک کر اس صورت حال پر قابو کیوں نہیں پالیتیں؟ ان مزاحمت کاروں پر پاس تو ڈرون طیاروں جیسا کوئی ریموٹ کنٹرول سسٹم نہیں ہے ۔ وہ تو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ہی انصاف کے ہر اصول کی رو سے اپنے ملک سے غاصب بیرونی فوجوں کو نکالنے کی سوفی صد جائز جنگ لڑرہے ہیں۔ خود مغربی ذرائع کے مطابق اس شکوے میں کوئی حقیقت نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ جنگ پاکستان میں مزاحمت کاروں کے محفوظ ٹھکانوں کی وجہ سے ہاررہے ہیں بلکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے 34 میں سے 33 صوبوں پر افغان عوام کی مزاحمتی تحریک کا کنٹرول ہے ۔ اس حوالے سے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے بعض حصے ملاحظہ فرمائیے : ”بیشتر صوبوں میں گورنر، ججوں اور پولیس کے سربراہ پر مشتمل طالبان کا اپنا متوازی نظام حکومت قائم ہے جو چوریوں، پڑوسیوں کے جھگڑوں اور شادی بیاہ کے تنازعات تک تمام معاملات میں عمل دخل رکھتا ہے۔کابل میں نیٹو ملٹری انٹلیجنس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ: 34 میں سے 33صوبوں میں طالبان کی شیڈو گورنمنٹ موجود ہے۔جبکہ قومی سطح پر ان کا قائد ملا عمر ایک ایسی حکومت کی سربراہی کررہا ہے جو کرزئی حکومت کے ختم ہوتے ہی باقاعدہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔“ رپورٹ میں طالبان کے ترجمان کے یہ الفاظ بھی شامل ہیں کہ ” ہم نے ہر صوبے میں گورنر، ضلعی سربراہ، ہر صوبے کے لیے ایک فوجی عدالت اور روزمرہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک سول عدالت قائم کررکھی ہے۔“ رپورٹ میں صوبہ قندھار کے ایک رکن پارلیمنٹ خالد پشتون کا یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ عام لوگ اب حکومت کے باغی ہورہے ہیں جن کی متشدداسلامی حکومت 2001ء کے اواخر میں امریکہ کے زیرقیادت فوج نے ختم کردی تھی۔ان کے موجودہ گورنر سابق طالبان حکومت کا حصہ تھے․․․ یہ لوگ جواں سال، متحرک، پرعزم اور بااثر ہیں۔ اور لوگ ان کے پاس اس لیے جاتے ہیں کیونکہ ان کا انصاف تیزرفتار اور عام انصاف سے زیادہ موٴثرنظر آتا ہے۔ جبکہ ہماری حکومت اپنے کرپشن کی وجہ سے زوال کا شکار اور ناکارہ ہے،عوام اس سے دور بھاگ رہے ہیں اور طالبان سے اپنے معاملات طے کرارہے ہیں۔“
سوال یہ ہے کہ جب افغان عوام کی تحریک مزاحمت خود اپنے ملک میں اتنی طاقتور ہے اور پورے ملک پر اس کا اس حد تک کنٹرول ہے تو اسے اپنی جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ان واقعاتی شواہد سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ امریکی قیادت کا یہ واویلا کہ وہ افغانستان میں جنگ پاکستان میں افغان تحریک مزاحمت کے محفوظ ٹھکانوں کی وجہ سے ہاررہی ہے، محض اس لیے ہے کہ رسوائی سے بچنے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جاسکے۔