اب یہ کوئی توہین رسالت کا مسئلہ نہیں رہا ہے ، یہ سب سیاست ہو رہی ہے۔ وہ مذہبی طاقتیں جن کو گزشتہ انتخاب میں شکست فاش ہوئی تھی ، اب انہیں انتقام کی وجہ مل گئی ہے۔ آسیہ بی بی کی توہین رسالت کیس میں سزا سے شروع ہونے والا یہ معاملہ عملی طور پر نومبر میں ختم ہوگیا تھا جب حکومت نے یہ وضاحت کر دی تھی کہ اس قانون میں ذرّہ برابر بھی تبدیلی نہیں کی جارہی ہے اور کوئی قابلِ ذکر حکومتی عہدیدار سلمان تاثیر کے نقطہ نظر کی حمایت نہیں کر رہا تھا۔
2008کے انتخابات نے جماعت کو پیوند خاک کردیا جب اس نے ان کا بائیکاٹ کرنے کی غلطی کی اور ضمنی انتخابات میں اس کی کارکردگی نے اس کی دگرگوں ہوتی ہوئی سیاسی حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ جماعت کا توہین رسالت کیس کو ایشو بنانا اپنی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعت اپنی احتجاجی سیاست کی کامیابی کو کبھی بھی انتخابی کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکی ہے۔ اب ہمیں اس معاملے کو براہ راست دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مولوی صاحبان میدان میں کود چکے ہیں ، اس لیے نہیں کہ وہ طاقتور ہیں ، بلکہ اس لیے کہ اُن کی مخالف طاقتیں کمزور اور بے سمت ہیں اور اُ ن کے پاس اس جنگ کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔زرداری صاحب کا نصب العین اقتدار میں رہنا اور اپنے اور اپنے خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی فوائد سمیٹنا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اُن کے پاس بہت کچھ ہے مگر انسان کا پیٹ کب بھرتا ہے۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا مطمئع نظر اپنے خاندان کو سیم و زر میں تولنا ہے۔ ان کی زرگری کی مہارت کے کارناموں پر مبنی جو کہانیاں گردش میں ہیں اُن میں دس میں سے ایک پر مبہم گمان اس یقین کو تقویت دیتا ہے کہ برسوں کی ریاضت ثمر بار ثابت ہورہی ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کے نزدیکی رشتے داروں کے ہاتھ بھی اس بہتی ہوئی گنگا کے کنارے خشک نہیں ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف ان چند ناموں تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کلّی طور پر بدعنوانی کا تمغہ سینے پر سجائے ہوئے ہے اور پرکشش عہدوں پر فائز کسی کے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں۔ وہ جو مایہ دیوی کے چرنوں سے دور ہیں اپنے آپ کو شہیدِ جفا گردانتے ہیں۔ نااہلی اور لالچ سے داغدار قیادت نہ تو کوئی اصلاحات لا سکتی ہے اور نہ ہی تنگ نظری اور مذہبی انتہا پسندی کے سیلابِ بلا خیز کے آگے بند باندھ سکتی ہے جو ریاست کی بنیادوں سے ٹکرا رہا ہے۔ مولوی صاحبان کبھی بھی پاکستان میں اقتدار میں نہیں رہیں اور ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے( مشرف دور میں ایم ایم اے کا صوبہ سرحد میں حکومت اس زمرے میں نہیں آتی ہے)۔ آج پاکستان جو بھی ہے ، جن اتھاہ گہرائیوں میں گر رہا ہے ، جن ناکامیوں سے دوچار ہے، جن حماقتوں کی طرف پوری تندہی سے گامزن ہے وہ انگریزی بولنے والے طبقہٴ شرفاء کی مہارت کا شاہکار ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے تمام تر اعمال میں سیکولر ہیں ، تاہم یہ مر جائیں گے مگر اپنے آپ کو سیکولر نہیں کہلائیں گے۔
مولوی ہمارے امریکہ کے ساتھ مختلف معاہدوں ۔۔۔ Cento اور Seato ، انڈیا کے ساتھ ہماری مہم جوئی،جہادی کلچر کو فروغ چڑھانے۔۔۔ کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ موخر الذکر المیہ فوج، جس کی قیادت جنرل ضیاء کے پاس تھی، کا شاہکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی عناصر اس کھیل میں بڑی لگن سے شامل ہو گئے مگر بہرحال وہ اس کے موجد نہ تھے۔ وہ سازندے تھے نہ کہ موسیقار۔
پہلی دستور ساز اسمبلی نے دستور تو نہ بنایا جو اسکی ذمہ داری تھی بلکہ ایک ایسے موضوع، قراردادِ مقاصد، پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے جس سے کسی کو بھی عملی فائدہ نہ تھا ۔ یہاں بھی مذہبی رہنما ذمہ دار نہ تھے بلکہ مسلم لیگ کی قیادت۔ نظریئہ پاکستان کی اصطلاح جنرل یحییٰ خان کے وزیرِ اطلاعات میجر جنرل نوابزادہ شیر علی خان کی ٹکسال کردہ ہے۔ یہ تصور کہ انڈیا پاکستان کا جانی دشمن ہے او ر اس کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، کسی مدرسے نہیں بلکہ یہ ہماری دفاعی حکمتِ عملی کا جزو لاینفک جی ایچ کیو کی پیداوارہے اور اس میں بڑی حد تک جاگیردارانہ ذہنیت کارفرما ہے۔ ہمارا شکستہ نظامِ تعلیم ہمارے انگریزی بولنے والے طبقے ، جس نے کبھی بھی پورے ملک کے لیے یکساں تعلیمی پالیسی، کتب اور نصاب اور ذریعہ تعلیم رائج کرنے کی زحمت نہیں کی، کا عطا کردہ ہے۔ فوج ، جس نے پاکستان پر راج کیا ہے، اسکے علاوہ مرکزی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار میں رہی ہیں۔ پاکستان کی ناکامی دراصل ان سب کی ناکامی ہے۔ مذہبی جماعتیں تو ثانوی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے لیے جتنا بھی فائدہ اٹھا سکیں اٹھایا مگر ان کے پاس قوت فیصلہ کبھی بھی نہ تھی۔ یہ پاکستان کے طاقتور جنرلز، سیاست دان اور اسکے ساتھ تعاون پر آمادہ کوتاہ نظر بیوروکریٹس تھے جن کی اگائی ہوئی فصل آج پک چکی ہے۔
اگر مذہب کا دنیاوی مقاصد کی بجا آوری کے لیے غلط استعمال ہو ا، جیسا کہ ہمارا افغانستان میں نہ ختم ہونے والا جہاد، جس نے ہمارے قومی ماحول کر زہر آلود کر دیا ہے اور گفت و شنید کی فضا گھٹن زدہ ہے تو یہاں بھی قصور اربابِ اختیار کا ہے۔ وہ حالات و واقعات کو تبدیل کیوں نہ کرسکے جب کہ اُن کے پاس وقت تھا اور وہ ایسا کر سکتے تھے۔ یہ درست ہے کہ ضیا دور نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے پاکستان کو مسخ کر دیا، اور بلاشبہ اُس نے ایسا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا۔ لیکن اُس کو رخصت ہوئے 22 سال ہو چکے ہیں، اور یہ اُس کے لگائے ہوئے چرکوں کو مندمل کرنے اور اُس کی باقیات کو ختم کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔ لیکن اگر آج بھی اس کے دور کی سوچ کی بہت سے مندروں میں پوجا ہو رہی ہے تو قصور کس کا ہے؟ آج کا پاکستان جناح کا پاکستان نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم حصولِ پاکستان کے اصل مقاصد کی طرف نہ لوٹ سکے تو یہ پاکستان کے سیکولر حکمرانوں اور فوجی جنرلز کی کج فہمی اور بے بصری ہے۔ ہم مذہبی طبقے کو کیوں موردِ الزام ٹھہرائیں؟
یہ مولوی نہیں ہے جو حکمران طبقے کو ڈراتا ہے، بلکہ وہ تو اپنے ہی سائے سے خوفزدہ ہے۔ ہمارے حکمران خود اپنے دماغ، اگر کبھی ان کے پاس تھا، سے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ غیر ملکی تصورات یا اپنے تخیلات کے دریا کے شناور ہیں۔ یہ ہمارے انگلش بولنے والے طبقے یا نام نہاد سول سوسائٹی جو کسی پوش علاقے کی مارکیٹ میں کیمروں کے سامنے موم بتیاں جلا کر اپنے فرائض منصبی سے دستبردار ہو جاتی ہے، کے بس کی بات نہیں کہ ان مذہبی افواج کے مدِ مقابل آئیں۔ اس مقصد کے لیے تمام منظر نامے میں نیا رنگ بھرنا ہوگا۔ یہ پاکستان کی ریاست کا مسئلہ ہے، اس کے اداروں کا مسئلہ ہے، اس کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے عقائد و نظریات کی درستگی کا معاملہ ہے اور ہم نے ان سب مسائل سے نبردآزما ہوتے ہوئے اپنی حماقتوں بھری ڈگر سے ہٹ کر عقل کی راہ لینی ہے۔ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بدستور بھارت کو اپنا دشمن گردانتی ہے اور ہمارے لیے ناقابل برداشت اسلحے کی دوڑ میں الجھ کر اس پر بے اندازہ رقم خرچ کرتی ہے ، افغانستان میں ہونے والی ہمارے لیے بے معنی پیش قدمیوں میں ملوث ہوتی ہے اور اپنے ملک کی معاشی بدحالی سے لا تعلق رہتی ہے تو ہم ان مسائل پر کبھی بھی قابو نہیں پا سکیں گے۔ لہٰذامولوی ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو ایک بہت بڑے فساد کی محض ظاہری علامت ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ غلط تصورات کے مارے ہوئے جنرل اور نااہل سیاست دان ہیں اور جب تک یہ درست نہیں ہوتے، مولویوں کی افواج پیش قدمی کرتی رہیں گی۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں reproduction کی اجازت نہیں ہے۔