جب سے ملک میں نظریات اورمنشور کی بجائے الیکٹ ایبلز(Electables)یعنی اپنی سیٹ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کو ساری جماعتیں خوشی خوشی پارٹی میں شامل کررہی ہیں اگرانہیں تھوڑا بھی یقین ہو کہ وہ آئندہ انتخابات میں اپنی سیٹ نکال ہی لیں گے۔ایسے لوگوں کی شمولیت کے لئے ایسا کہرام مچاہوا ہے کہ تھم ہی نہیں رہا۔جس میں مزیدتیزی آنے کا قوی امکان ہے ۔نہ صرف نئے شامل ہونے والے بلکہ قریباً تمام بڑی جماعتوں میں آج کل کچھ اور لوگوں کی بھی خوب آوبھگت ہورہی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جوپراپرٹی ڈیلروں کی طرح اپنی جماعتوں میں لانے کے لئے ڈیل کراتے ہیں ۔اورایسا کرکے وہ پارٹی سربراہان کے قریب ہونےمیں کامیاب ہوجاتے ہیں اوران کی تصویریں بھی میڈیا کی زینت بنتی ہیں جس سے وہ پورافائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔ ان میں کچھ توجینوئن لوگ بھی ہیں جو اس کام کو پارٹی سے وفاداری نبھانے کی نیت سے کرتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی پارٹی کے وفاداروںکا راستہ روکنے کا باعث بھی بن رہے ہیں جبکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ جس نووارد کو پارٹی میں لارہے ہیں وہ آئندہ انتخابات کے لئے پارٹی کا ٹکٹ لے گا اوراس ٹکٹ کے انتظارمیں عرصے سے پارٹی سے وفادار کارکن پھر پیچھے رہ جائے گا۔ اس عمل سے پرانے کارکنوں کی بڑی تعداد مایوس ہو جاتی ہے ۔ دیرینہ کارکنوں کی ناراضی کی وجہ سےسارا کا سارا سیاسی کلچر متاثرہورہا ہے۔ اب یہ ہی دیکھ لیں کہ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے جھنڈے تلے پشاورسے الیکشن لڑنے والے ضیاءاللہ آفریدی اس بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قسمت آزمائیں گے۔، پیپلزپارٹی کے سابقہ جیالے شوکت علی تحریک انصاف کے ٹکٹ پرمیدان میں ہو نگے، اے این پی کے ٹکٹ پرپشاورسے قومی اسمبلی کاانتخاب لڑنے والے ارباب نجیب اللہ اورارباب سعداللہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی کے امیدوارہونگے ، اے این پی کے سرکردہ رہنما ارباب ایوب جان مرحوم کے فرزند ارباب عثمان پیپلزپارٹی کوپیارے ہوچکے ہیں، پیپلزپارٹی کے نورعالم خان تحریک انصاف میں جاچکے ہیں۔ مشرف لیگ کے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد چند ماہ جے یو آئی میں گزارنے کے بعد پیپلز پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اندازہ ہی نہیں ہورہا کون کس کا وفادار ہےاس لئے کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ یہ سب اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کو کیسے مطمئن کریں گے کہ پچھلی باروہ جن لوگوں کے خلاف لڑرہے تھے وہ اب ان کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔ بات تو بڑی سچی ہے لیکن ہے تھوڑی سی کڑوی کہ انسان کو گرنا بھی ہوتوذرا دیکھ کرگرے اوراتنا بھی نہ گرے کہ لوگ مذاق اڑائیں۔ ساری جماعتیں خوش ہیں اورکہتی ہیں کہ آنے والا کل ان کا ہے اس لئے کہ ان کے مخالفین ان کے پاس آرہے ہیں ۔اس ساری صورتحال میں قابل رحم حالت ان جماعتوں کی ہے جوکبھی اصولی بھی شمارکی جاتی تھیں جن میں اے این پی اورتحریک انصاف نمایاں ہیں، وہ اب پرایوں کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتیں کہ ان لوگوں کو کس منہ سے اگلے الیکشن میں لے کرجائیں گے اورووٹرزکوتوایک طرف ۔خود اپنے کارکنوں کو کیسے مطمئن کرینگے ، کارکن بے چارہ بھی کشمکش میں ہوگا کہ جس امیدوارکے اہل خانہ تک کو اس نے پچھلے الیکشن میں برا کہا تھا اب وہ اس کا دفاع کیسے کرے گا۔ تحریک انصاف نے پچھلی بارالیکشن میں نئے لوگوں کو اتارکریہ کہا تھا کہ وہ سیاسی کلچربدلنے جارہی ہے لیکن جس رفتار سے وہ دوسری جماعتوں کے ناپسندیدہ لوگوں کواپنی صفوں میں شامل کررہی ہے اس سے ایک بات توبڑی واضح ہے کہ وہ سمجھ چکی ہے کہ اس کی اپنی کارکردگی اس قابل نہیں ہے کہ وہ پھر نئے امیدواروں کے ساتھ آئندہ الیکشن میں جانے کا رسک لے ۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت فیصلہ کرچکی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کے امیدواربدلے ہوئے ہونگے لیکن اس فیصلے کا اعلان نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ اسمبلی میں وہ اپنے ہی لوگوں کی حمایت کے محروم ہونے سے ڈرتی ہے۔ ایک نئی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سیاست کے میدان کے وہ گُرو جوانتخابات سے پہلے تجزیہ کرکے بتادیتے تھے کہ اب کی بار کون جیتنے جارہا ہے ۔ اب وہ اس قابل ہی نہیں رہے ہیں کہ وہ کوئی مناسب اندازہ ہی لگاسکیں اورتجزیہ کرسکیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک توتحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے لئے کچھ مناسب انتظامات کررکھے ہیں۔ لوگوں کو تجارتی فوائد دیئے گئے ہیں جس پرانگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ اس سے آئندہ انتخابات میں اس کو فائدہ ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے سمجھداروزیراعلیٰ نے اپوزیشن کو رام کئے رکھا۔ وہ انہی کا خاصہ ہے کہ کسی ایک اپوزیشن پارٹی نے بھی حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اب تجربے کی کمی نہیںہے۔ حالانکہ جتنی کامیابی اس نے اپنے مخالفین سے نمٹنے میں حاصل کی وہ گورننس بہتر کرنے میں بھی حاصل ہوسکتی تھی۔ یہ ساری باتیں آئندہ انتخابات میں کام آئیں گی لیکن ان باتوں کو کام میں لانے والے سارے ادھر ادھرہو چکے ہونگے وہ جوکل دوسرے پر ایک پلیٹ فارم سے سخت تنقید کررہے تھے اب دوسرے پلیٹ فارم پربیٹھ کردفاع کررہے ہونگے۔ اس سارے عمل نے جہاں نظریاتی سیاست کو فارغ کردیاوہیں تحریک انصاف کو بھی اے این پی، پیپلزپارٹی اوردیگرروایتی جماعتوں کی صف میں کھڑا کردیاہے۔