کراچی(ٹی وی رپورٹ)امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل بنانے کا اصولی فیصلہ ہوچکا لیکن ابھی خدوخال طے ہونا باقی ہیں، ہمارا بنیادی ایجنڈا کرپشن کے خلاف اور اسلامی نظام کا ہے،اس ایجنڈے پر جو بھی ہمارے ساتھ چلنا چاہے اسے خوش آمدید کہتے ہیں، کسی بدعنوان شخص کو متحدہ مجلس عمل میں شامل نہیں کریں گے،جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں شریک لیکن دونوں کی سیاست الگ ہے، مولانا فضل الرحمن کبھی بطور وزیراعظم اقتدار میں نہیں رہے ہیں،سیاسی جماعتوں کو جاگیرداروں سے چھٹکارا دلانے کیلئے متناسب نمائندگی پر متفق ہونا ہوگا،ایم ایم اے کی بحالی کیلئے پہلی دعوت مولانا فضل الرحمن نے دی تھی،متحدہ مجلس عمل کا فورم فیصلہ کرے گا کہ جے یو آئی (ف) کو وفاقی اور جماعت اسلامی کو خیبرپختونخوا حکومت سے الگ ہونا چاہئے،پاناما فیصلے سے ثابت ہوا کہ یہ حکومت کا مسئلہ نہیں نواز شریف کا انفرادی عمل تھا،انتخابات ملتوی نہیں کروانا چاہتے،ہم چاہتے ہیں احتساب اور انتخاب ساتھ ساتھ چلے،فاٹا انضمام پر مولانا فضل الرحمن اور ہمارے موقف میں اختلاف ہے،حکومت فاٹا کو بجٹ یا مراعات نہیں دیناچاہتی اسی لئے انضمام کے معاملہ پر بہانے بازی کررہی ہے،مولانا فضل الرحمن کا فاٹا انضمام کو امریکی ایجنڈا قرار دینا درست نہیں ہے،انتخابات مقررہ وقت پر ہونا چاہئیں، مرکزی یا کوئی صوبائی حکومت شہید نہیں ہونی چاہئے۔
وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل بنانے کا اصولی فیصلہ ہوچکا لیکن ابھی خدوخال طے ہونا باقی ہیں، متحدہ مجلس عمل میں دینی جماعتوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں،ایم ایم اے میں اسلام کے ایجنڈے پر متفق جماعتوں کوا کٹھا کرنا چاہتے ہیں، ہمارا بنیادی ایجنڈا کرپشن کے خلاف اور اسلامی نظام کا ہے، اس ایجنڈے پر جو بھی ہمارے ساتھ چلنا چاہے اسے خوش آمدید کہتے ہیں، متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کیلئے بعض لوگوں نے رابطے کیے ہیں، پاکستان ظالم جاگیرداروں یا کرپٹ سرمایہ داروں کیلئے نہیں بنا تھا، قائداعظم نے پاکستان کو مدینہ کی اسلامی حکومت جیسا ماڈل بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ کسی بدعنوان شخص کو متحدہ مجلس عمل میں شامل نہیں کریں گے،متحدہ مجلس عمل میں شامل کسی شخص کا نام پاناما اسکینڈل اور قرضے معاف کروانے والوں میں شامل نہیں ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بار بار مواقع مل چکے ہیں، مولانا فضل الرحمن کبھی بطور وزیراعظم اقتدار میں نہیں رہے ہیں، پاکستان کے اسلامی آئین پر یقین رکھنے والے تمام لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ شریک اقتدار ہے لیکن دونوں کی سیاست الگ الگ ہے، حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے نظریات یکسا ں نہیں ہوتے، عام آدمی پوچھتا ہے دینی جماعتیں اسلامی نظام کی بات کرتی ہیں تو آپس میں کیوں نہیں ملتی ہیں، پاکستان میں منبر و محراب نے جب بھی ایک ہوکر قوم کو دعوت دی وہ ہمیشہ قبول کی گئی، منبر و محراب قوم کو شعور دینے کے بنیادی مراکز ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی استعماری ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ اور پھوٹ ڈالی جائے،یمن ہو یا شام یا عراق ہو وہاں لڑائی کا فائدہ عالمی استعمار ی قوتوں کو ہوتا ہے، ہم یکساں نصاب چاہتے ہیں، حکومت نے اسکولوں،کالجوں کیلئے ایک بورڈ لیکن دینی مدرسوں کیلئے پانچ علیحدہ بورڈ بنائے ہیں، ریاست شروع سے لوگوں کو مسلکوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے، مسلکوں سے بالاتر ہو کر قدرِ مشترک پر اکٹھے ہو کر ایک ایجنڈے کے ساتھ قوم کے پاس جانا چاہتے ہیں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی بنیاد مسلک پر نہیں ہے ، جماعت اسلامی میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہوسکتے ہیں، دس لاکھ طلباء جماعت اسلامی کے اسکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم ہیں، الخدمت کے ذریعہ ایک سال میں تریسٹھ لاکھ لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی ہیں، پاکستان جغرافیہ کا نہیں نظریہ کا نام ہے۔
سراج الحق نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو جاگیرداروں سے چھٹکارا دلانے کیلئے متناسب نمائندگی پر متفق ہونا ہوگا، متناسب نمائندگی کے حوالے سے ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سے بات کی، آصف زرداری نے کہا بات اچھی ہے لیکن جب آپ اسمبلی میں اکثریت میں آجائیں تو ایسا کرلیں۔سراج الحق نے کہا کہ ایم ایم اے کی بحالی کیلئے پہلی دعوت مولانا فضل الرحمن نے دی تھی، متحدہ مجلس عمل کا فورم فیصلہ کرے گا کہ جے یو آئی (ف) کو وفاقی اور جماعت اسلامی کو خیبرپختونخوا حکومت سے الگ ہونا چاہئے، جب تک مشترکہ پلیٹ فارم نہ بنے جماعت اسلامی اور جے یو آئی اپنے انفرادی فیصلوں کیلئے آزاد ہیں، متحدہ مجلس عمل بننے کے بعد ہمیں اخلاقی طور پر اپنی پوزیشن تبدیل کرنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پاناما فیصلے سے نواز شریف نااہل ہوئے مگر ا ن کی حکومت موجود ہے، پاناما فیصلے سے ثابت ہوا کہ یہ حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ نواز شریف کا انفرادی عمل تھا جس کی سزا انہیں مل رہی ہے، حکومت میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں، ایک شخص کی وجہ سے پوری حکومت کو کرپٹ نہیں کہا جاسکتا، پاناما اسکینڈل میں شامل تمام 436افراد کا احتساب ہونا چاہئے، سپریم کورٹ سے قرضے ہڑپ کرنے والوں کے احتساب کا بھی مطالبہ کریں گے،نیب 150میگا اسکینڈل پرکارروائی کرے، انتخابات ملتوی نہیں کرواناچاہتے،ہم چاہتے ہیں احتساب اورانتخاب ساتھ ساتھ چلے۔
سراج الحق کاکہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام کاحامی ہوں،خواہش ہے اگلےانتخابات میں فاٹا کےعوام کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی مل جائے، فاٹاانضمام پرمولانا فضل الرحمن اور ہمارے موقف میں اختلاف ہے، مولانا فضل الرحمن کو فاٹا کے خیبرپختونخوامیں انضمام پرقائل کرنے کی کوشش کریں گے، حکومت فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرے ،مولانا فضل الرحمن اتنے پہلوان نہیں کہ مرکزی حکومت کے فیصلے کی راہ میں کھڑے ہوجائیں، اسٹیبلشمنٹ بھی فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام چاہتی ہے،حکومت فاٹا کو بجٹ یا مراعات نہیں دیناچاہتی اسی لئے انضمام کے معاملہ پر بہانے بازی کررہی ہے، فاٹا کے ایم این ایز خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے اسمبلی میں بل پیش کرچکے ہیں،مولانا فضل الرحمن کا فاٹا انضمام کو امریکی ایجنڈا قرار دینا درست نہیں ہے، خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام میں وقت لگے گا لیکن یہ ہوکر رہے گا۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ڈی آئی خان میں بچی کے ساتھ ظالمانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہیں،متاثرہ بچی کوا نصاف دلانے کیلئے ساتھ کھڑے ہیں، ایسے واقعات پاکستانی معاشرے پر بدنما داغ ہیں۔سراج الحق نے کہا کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونا چاہئیں، مقررہ مدت سے ایک مہینے پہلے بھی حکومت ختم ہوگئی تو یہ مظلوم بن جائیں گے، مرکزی یا کوئی صوبائی حکومت شہید نہیں ہونی چاہئے۔