اسلام آباد( طاہر خلیل) اتوار کو فیض آباد دھرنے کے حوالے سے وزیرداخلہ احسن اقبال جب اپنے خانوادے کی دینی خدمات کا تذکرہ کررہے تھے تو یاد آیا یہ کوئی35 سال قبل کا واقعہ ہے،جنوری 1982 جنرل ضیاالحق نے قومی اسمبلی کے متبادل خود ساختہ مجلس شوریٰ کے تصور کو عملی شکل دی اوراس کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں شاہراہ جمہوریت پر نادرا ہیڈ کوارٹر کی موجودہ بلڈنگ میں ہورہا تھاجسے شوریٰ سیکرٹریٹ کا نام دیا گیا تھا۔ جنرل ضیا بنفس نفیس شوریٰ کے افتتاحی اجلاس میں شریک تھے جسے خواجہ صفدر کی سربراہی حاصل تھی، مکمل حجاب کے ساتھ پچھلی نشستوں سے ایک خاتون اٹھیں یہ آپا نثار فاطمہ کی آوا ز تھی جس میں انہوں نے جنرل ضیا کو مخاطب ہوکر دوباتیں کیں۔ ایک جمہوریت کیلئے اور دوسری آزادی صحافت کے حق میں، ان کا کہناتھا کہ آپ نے شوریٰ بنادی، شوریٰ کے ذریعے انتقال اقتدار کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ان کا دوسرا مطالبہ تھا کہ اخبارات پر پیشگی سنسر شپ ختم کی جائے۔ جنرل ضیا نے آپا نثار فاطمہ کے مطالبات پر ردعمل کا اظہار کیا اورکہاتھا کہ جب تک سارا حکومتی نظام اسلامی سانچے میں نہیں ڈھلے گا انتخابات نہیں ہوں گے۔ سنسر شپ کے حوالے سے انہوں نے کچھ آمادگی ظاہر کی لیکن ساتھ ہی کہاکہ’’ منفی‘‘ خبریں روکنے کیلئے سنسر شپ ضروری ہے۔شوریٰ کا دوسرا اہم واقعہ 51 قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا تھا اس کے لئے آپا نثارفاطمہ نے ہفتوں یا مہینوں میں نہیں دنوں میں کام مکمل کیا اور سفارشات تیار کی تھیں، شوریٰ کےدنوں میں آپا نثار فاطمہ ایک بھاری بھرکم آواز تھی جو اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لئے محترم گردانی جاتی تھیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے آپا نثار فاطمہ کے حصے میں ایک بڑا کریڈٹ موجود ہے یہ بھی شوریٰ کے دنوں کی بات ہے جب آپا نثار فاطمہ نے ایوان میں یہ مسئلہ اٹھایا کہ 1973 کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیاگیا ہے، مارشل لا کے تحت د ستور پاکستان کو معطل کر دیاگیا ہے، حکومت وضاحت کرےکہ عبوری آئین کے تحت قاد یانیوں کا کیا سٹیٹس ہے؟ اس پر وزارت قانون کو شوریٰ میں بیان دینا پڑا تھا کہ عبوری آئین کے تحت قادیانیوں کی حیثیت تبدیل نہیں ہوئی تھی۔اس طرح ایک بڑا ابہام دور کرنے میں آپا نثار فاطمہ کا بڑا کردار تھا۔احسن اقبال 1988 سے مسلم لیگ(ن) میں ہیں، یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ اسلامی جمہوری اتحاد کی اہم جماعت تھی اسی پس منظر میں احسن اقبال کی سیاست پر دینی چھاپ نمایاں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ دھرناختم کرانے کے لئے ڈنڈے کی بجائے مکالمے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں تاکہ تشدد کی جگہ دانش غالب آئے اورملک کو نئے بحران سے بچا یا جاسکے۔ فیض آباد دھرنے کے ضمن میں بعض حلقوں کی جانب سے پھبتی کسی جارہی ہے کہ حکومت سرےسے کہیں نظر ہی نہیں آتی، امورمملکت چلانے والے ہاتھ غائبانہ ہیں اور غالباً دھرنا کی صورتحال جوں کی توں رکھنے پر بضد ہیں تاکہ بے یقینی کی کیفیت کو جاری رکھ کر سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی جاسکے، آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس شروع ہورہے ہیں، یہ سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دارالحکومت کی یرغمالی کیفیت کوختم کرانے کے لئے تدبر اور فراست کی حکمت عملی اپنائیں تاکہ ملک کو کسی نئے اور پر تشدد بحرانی آسیب سے محفوظ رکھا جاسکے۔