• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی نمک خوار اور حقائق...شاہ محمود نے اصول، انصاف اور قومی حرمت کی خاطروزارت قربان کردی

امریکی، "نمک خواروں "کے ایک مخصوص ٹولے کے بس میں نہیں کہ کس طرح فوری طور پر دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ بے غیرتی کی موٹی کھال اوڑھے ہوئے یہ طبقہ کسی طور امریکا کو ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں اور پاکستانی قوم اور حکومت سے یہ توقع رکھتا ہے کہ چاہے قانون جو مرضی کہے، جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اور عدالتیں خواہ جو مرضی کہیں پاکستان کو ہر حال میں امریکی قاتل کو فوری امریکا کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ہمیں ڈراوا دیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو امریکا ہماری امداد بند کر دے گا اور ہمارا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ ابھی تک خود امریکا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں کئی پینترے بدل چکا ہے مگر امریکا کے یہ نمک خوار پاکستانی اس بات پر بضد ہیں کہ امریکی قاتل کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے ۔ یہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اصول، انصاف، قانون اور قومی حرمت کی خاطر اپنی وزارت کو قربان کرتے ہوئے اس معاملہ پر واشگاف انداز میں امریکا کو بتا دیا ہے کہ اُن کی خواہش پر ریمنڈ ڈیوس کو نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ یہاں امریکا نے خود بارہا کہا کہ ڈیوس لاہور میں امریکی قونصلیٹ کا ممبر ہے جس کی بنیاد پر اگر وہ سفارتکار ثابت بھی ہوتا ہے تو اس کے باوجود اس کو دو افراد کے قتل کے مقدمے میں استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ بھی واضح ہے کہ سفارتکاری کی تاریخ میں اور ویانا کنونشن کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جہاں ایک ”سفارتکار“ (اگر ریمنڈ ڈیوس کو ایک لمحہ کے لیے سفارتکار مان بھی لیا جائے) نے اس انداز میں دو افراد کو قتل کیا کہ جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں یہ بھی ثابت ہو چکا کہ پنجاب پولیس کو تفتیش کے دوران ریمنڈ ڈیوس نے اپنے آپ کو لاہورقونصلیٹ میں تعینات بتایا۔ یہاں یہ بھی سامنے آ چکا کہ ڈیوس نے اپنے بچاؤ کے لیے نہیں بلکہ طیش میں انتہائی بے دردی سے دو پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگا جبکہ اس کی مدد کے لیے آنے والی گاڑی نے ایک اور نوجوان کو روند ڈالا۔ اس سب کے باوجود امریکی،" نمک خواروں" کا یہ حال ہے کہ امریکا کی وکالت کرتے نہیں تھکتے اور قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے والوں کو جذباتی اور کم عقل سمجھتے ہیں۔
ویانا کنونشن 1963 کے مطابق قونصلیٹ کے کسی بھی عہدیدار چاہے وہ اعلیٰ ترین سفارتکار ہو، کو قتل جیسے سنگین جرم میں سفارتی استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا مگر امریکا کے نمک خواروں کی یہ حالت ہے کہ وہ کسی منطق کو مانتے ہیں اور نہ کوئی دلیل سننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ تو ہر صورت میں قاتل امریکی کو امریکا کے حوالے کرنے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ریکارڈ میں ڈیوس ایک سفارتکار یا ایمبیسی کے اہلکار کے طور پر رجسٹرڈ نہ تھا اور نہ ہی اس کو وزارت خارجہ کا ڈپلومیٹک شناختی کارڈ دیا گیا۔ اس دہرے قتل کے بعد اب یہ وزارت سخت دباؤ کا شکار ہے کہ ڈیوس کو ایمبیسی کا سفارتکار دکھا کر اس کو ایک ایسے سنگین جرم میں استثنیٰ دیا جائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی وجہ سے تین جانیں ضائع ہوئیں۔
امریکی ویزے، ڈالروں کے بدلے اور کچھ اپنے دوسرے شوق کی خاطر ملک و قوم کی عزت کا سودا کرنے والے تو کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے میں یہاں عام قارئین کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کر رہا ہوں:-
۔ ریمنڈ کے اپنے بیان کے مطابق وہ لاہور قونصلیٹ میں تعینات تھا۔ تفتیشی حکام نے اس سے بارہا اس بات کی تصدیق کی۔ منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں تو تفتیش کا عمل شروع ہونے سے پہلے جونیئر پولیس آفیسرز نے اس سے یہاں تک پوچھا کہ ”آیا تم امریکن ایمبیسی میں تعینات ہو“ تو ریمنڈ نے واضح طور پر کہا نہیں، میں امریکی قونصلیٹ لاہور میں تعینات ہوں۔
۔ لاہور قونصلیٹ کے حکام نے باقاعدہ جاری کی گئی پریس ریلیز میں عین وقوعہ کے دن ریمنڈ ڈیوس کو قونصلیٹ کا ملازم قرار دیا۔
۔ قونصلیٹ میں تعینات کسی بھی عہدیدار کے لیے بھی (Vienna Convention on Diplomatic Relations-1961) لاگو نہیں ہوتا۔ قونصلیٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کیلئے Vienna Convention on Consulor Relations-1963 لاگو ہوتاہے جس کے آرٹیکل 41(I) کے تحت قونصلیٹ کے کسی بھی رکن کو قتل جیسے سنگین جرائم پر استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
۔ یہ صورتحال واضح ہونے کے بعد واقعے کے تیسرے روز امریکی سفارت خانے نے باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعہ یہ ”وضاحت“ کی کہ ریمنڈ ”دراصل“ اسلام آباد کی امریکن ایمبیسی میں تعینات تھا۔ صاف ظاہر ہے یہ بیان اس لیے جاری کیا گیا کہ کسی طریقے سے ریمنڈ کے کیس پر 1961 کا سفارتی تعلقات کا ویانا کنونشن نافذ ہو۔ محترم شاہ محمود قریشی نے تصدیق کر دی ہے کہ واقعے کے اگلے روز 28 جنوری 2011ء کو امریکی سفارت خانے نے حکومت پاکستان کو باقاعدہ خط میں ریمنڈ کا نام سفارت خانے کے ملازمین میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا جس سے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ 25 جنوری کو جاری کی جانے والی فہرست میں ریمنڈ کا نام شامل نہیں تھا۔
۔ریمنڈ کے بیان، امریکی اہلکاروں کی تصدیق کہ ریمنڈ قونصلیٹ کا رکن ہے اور جناب شاہ محمود قریشی کے انکشافات نے یہ واضح کر دیا کہ ریمنڈ پر 1963 کا Vienna Convention لاگو ہو گا اور اسے اسی کنونشن کے آرٹیکل 41(I) کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں ہے
کیوں کہ اس کا جرم سنگین نوعیت کا ہے۔
۔ اگر یہ تسلیم بھی کیا جائے کہVienna Convention on Diplomatic Relation 1961 کو ریمنڈ کو مکمل سفارتی استثنیٰ کے حوالے سے نافذ کیا جائے تاکہ امریکا خوش ہو جائے تو اس معاملہ میں اس کنونشن کا آرٹیکل 10(I) اہم ہے ۔ اس آرٹیکل کی روشنی میں سفارتکار بھیجنے والے ملک کا یہ استحقاق ہے کہ وہ اپنے کسی اہلکار کے لیے خصوصی استثنیٰ کا مطالبہ کرے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف اور صرف میزبان ملک کی وزارت خارجہ ہی اس Status کو کنفرم کر سکتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ 1961 کے سفارتی تعلقات ویانا کے کنونشن کے تحت استثنیٰ کا دعویٰ صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے جب اس کنونشن کے آرٹیکل 10(I) کے تحت ایسے سفارت کار یا اہلکار کو میزبان ملک کی وزارت خارجہ باقاعدہ notify کر دے ۔ امریکا میں تو باقاعدہ دفتر خارجہ سفارتی کارڈ جاری کرتا ہے جن پر اگر استثنیٰ ہو تو اس حوالے سے تصدیق بھی درج ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی دفتر خارجہ کا ستمبر 2010 کا جاری کردہ کتابچہ دیکھا جا سکتاہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ جن سفارتکاروں کے پاس یہ کارڈ نہ ہویاکارڈکے اوپراستثنیٰ کے حوالے سے واضح ہدایات درج نہ ہوں‘ انہیں کسی بھی صورت کسی بھی جرم کے حوالے سے استثنیٰ نہ دیاجائے بلکہ یہاں تک درج ہے ایساکارڈ موجودہونے اور اس پراستثنیٰ کے واضح اندراج کے باوجودیہ ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعلقہ اہلکار دفتر خارجہ کوفون کرکے باقاعدہ تصدیق کریں گے یعنی ویانا کنونشن کے تحت حاصل استثنیٰ میزبان ملک کی وزارت خارجہ کوNotify کرنے سے منسلک ہے۔
۔ 1961ء کے اسی ویاناکنونشن کے استثنیٰ کیلئے اہلیت کی شرائط بھی موجود ہیں۔ واقعے کے تیسرے ہی دن خود امریکی دفتر خارجہ نے سرکاری طور پر کہاکہ امریکی قاتل کا نام"Raymand Davis" نہیں ہے۔ آج کے دن تک اس سرکاری بیان کی تردیدنہیں کی گئی۔ قریشی صاحب تصدیق کرچکے ہیں کہ ریمنڈ کی استثنیٰ کی درخواست پاکستانی وزارت خارجہ نے آج تک notify نہیں کی۔ فرض کریں ایسا کربھی دیاگیاہوتا تب بھی جب امریکی حکومت سرکاری طور پر اعلان کررہی ہے کہ اس شخص کا نام ریمنڈنہیں تواستثنیٰ کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا کیونکہ ویاناکنونشن کے تحت جس شخص کوبھی استثنیٰ حاصل ہوگا‘ اس کے نام سے میزبان ملک کی وزارت خارجہ کانوٹیفیکیشن جاری ہوناضروری ہے۔
پاکستان کو یقیناً ایک ذمہ دارملک کی طرح بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے مگرایک خودمختار ملک ہونے کے ناطے کسی طاقتورملک کی دھونس دھمکیوں میں آکرویاناکنونشن کی غلط تشریحات بھی قبول نہیں کی جا سکتی، اگرریمنڈ کو استثنیٰ حاصل ہوتا بھی تب بھی پاکستان کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 32کے تحت امریکا سے یہ استثنیٰ واپس لینے کی درخواست کر نی چاہیے تھی کیونکہ ریمنڈایک انتہائی خطرناک نوعیت کی مجرمانہ کارروائی میں ملوث پایاگیا ہے۔
۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کے مطابق یہ ہر سفارتکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا مکمل احترام کریں ۔ کیا ریمنڈ نے ایسا کیا؟
۔ امریکی دفتر خارجہ کی اپنی دستاویز کے مطابق: "It should be emphasized that even at its highest level, diplomatic immuinty does not exempt diplomatic officers from the obligation of conforming with national and local laws and regulations. Diplomatic immunity is not intended to serve as license for persons to flout the law and purposely avoid liability for their actions. The purpose of these privileges and immunities is not to benefit individuals but to ensure the efficient and effective performance of their official missions on behalf of their governments."
حقیقت یہ ہے کہ ایک طبقہ ہمیں امریکاکی غلامی سے آزاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ کوشش یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں اور خاص طور پر مشرف دور میں پاکستانیوں اور دوسرے مملک کے مسلمانوں کو امریکا کے حوالے کیا جاتا رہا اور امریکا کی مرضی کے مطابق یہاں سب کچھ کیا جاتا رہا وہ سلسلہ اسی انداز میں جاری رہے۔کوئی امریکا سے پوچھنے والا نہیں کہ مشرف دور میں 1961ء کے اسی ویاناکنونشن کے آرٹیکل 45,44,39 کی کس کس نے دھجیاں اڑائیں جب 2001میں پاکستان میں افغانستان کے سفیرملا ضعیف کوشدیدتشددکے بعدپاکستان کے فوجی حکمرانوں نے امریکیوں کے حوالے کیاتھا۔ ملاضعیف کی زبانی سنائی گئی کہانی کے بعدکم ازکم امریکیوں اور ان کے مشرف جیسے پاکستانی حواریوں کوویاناکنونشن کانام لیتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے۔ 1961ء کے ویاناکنونشن کاابتدائیہ اورآرٹیکل 41(1) پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کنونشن کا مقصد ہر گز ہرگزمجرموں اورجاسوسوں کاتحفظ نہیں تھا۔ امریکا کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معاہدہ کیاہوا ہے اوراگر ہم نے ریمنڈ کو امریکا کے حوالے نہ کیا تو پاکستان کے ساتھ بہت براہوگا۔ وہ کہتے ہیں ریمنڈکوتونارمل استثنیٰ حاصل ہے اور یہ کہ استثنیٰ کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ یہ دھمکی بھی دی جاتی ہیکہ امریکا بہت طاقتورملک ہے، سپرپاورہے۔ پاکستان بہت کمزورملک ہے۔ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزورہے۔ پاکستان ریمنڈکوحوالے نہ کرکے امریکی امدادسے ہاتھ دھوبیٹھے گا اور کسی بھی طور پراپنی معیشت صحیح نہیں کرسکے گا، لیکن میرا سوال امریکی غلاموں سے یہی ہے کہ کیا غریب کی کو ئی عزت نہیں ہوتی؟ کیا ایک کمزور ملک اپنی خودمختاری کو برقرار نہیں رکھ سکتا؟ کیا قرضے کے عوض اپنے گھر کے دروازے غیروں اور طاقتور غنڈوں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں؟ اگر ریمنڈ کے قتل کو ویانا کنونشن کی آڑ میں چھوٹ دے دی جائے تو کیا یہ ہر ملک کے لیے آسان نہ ہو جائے گا کہ وہ اپنے دشمن مملک میں اپنے سفارتکاروں کے ذریعے قتل و غارت کرا دیں۔
تازہ ترین