• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کےبعض اقدامات پارلیمان کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں۔ سب سے اہم بات اراکین پارلیمان کا غیرسنجیدہ رویہ ہے کہ وہ تمام تر مراعات حاصل کرنے کے باوجود ایوان میں آنے کی زحمت کم ہی گوارا کرتے ہیں۔ اگست کے اواخر میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وزرا کی غیرحاضری پر باقاعدہ اظہار ِ برہمی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم ایوان میں آسکتے ہیں تو وزرا کیوں نہیں؟ اب جبکہ ملک ایک طرح کی بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے، پارلیمان کی ذمہ داری دوچند ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور مبصرین اس صورتحال کے خاتمے کوبروقت اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار دے رہے ہیں تو ان کی رائے کو یکسر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی اس حوالے سے روش یہ ہے کہ سینیٹ میں حلقہ بندی آئینی ترمیم ایک بار پھر محض اس لئے نہ ہوسکی کہ اراکین کی مطلوبہ تعداد ہی ایوان سے غائب رہی۔ پیر کے روز چیئرمین سینیٹ کی زیرصدارت اجلاس میں فاٹا کے تمام، حکومت کے 26اور اپوزیشن کے 46اراکین غیرحاضررہے۔ یوں اراکین کی دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے ایجنڈے پر موجود ہونے کے باوجود یہ انتہائی اہم بل پیش ہی نہ کیا جاسکا۔ اپوزیشن ہی کیا حکومتی اراکین کے اس طرز عمل سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں انتخابات کا التوا چاہتی ہیں؟ اگر ایسا نہیں تونئی حلقہ بندی آئینی ترمیم کے حوالے سے ان کے رویے کوکیا نام دیا جائے؟ پارلیمان کی مضبوطی اور اس کا وقار اس قانون سازی میں مضمر ہے جو اس کا اولین فریضہ بھی ہے اور اسے دوسرے اداروں سے ممتاز بھی کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کےقائدین کو اپنے ارکان کی ایوان میں حاضری کویقینی بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ وطن عزیز میں جو سیاسی ہلچل دکھائی دیتی ہے اس کاخاتمہ بلاشبہ اسی طرح ممکن ہے کہ پارلیمان اور اراکین پارلیمان سنجیدگی سے اپنا کردارادا کریں۔

تازہ ترین