• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نااہل شخص کو پارٹی کی قیادت سے روکنے سے متعلق پیپلز پارٹی کا مسودہ قانون جو پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں منظوری کے بعد ایوان زیریں (قومی اسمبلی) سے مسترد کیا جاچکا ہے، اس کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانے کے قوی امکانات ہیں۔ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی اکثریت ہے اور اس بناء پر مذکورہ بل وہاں منظور ہوگیا تھا جبکہ قبل ازیں مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت کا اہل قرار دینے کا بل ایوان بالا (سینیٹ ) میں بھی منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ سینیٹ میں جہاں اپوزیشن ارکان اکثریت میں ہیں، اس بل کو منظور کرالینا بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ قومی اسمبلی میں حکمراں پارٹی غالب اکثریت کی حامل ہے، اس لئے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت کی اجازت دینے والی شق 203کی منظوری نہ اس وقت کوئی مسئلہ تھی نہ اس بار کوئی مسئلہ بنی۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گیا تو وہاں سے بھی حکمران جماعت اپنے لیڈر کو پارٹی صدارت جاری رکھنے کی اجازت دینے والی شق 203آسانی سے منظور کرالے گی۔ منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی خاطر خواہ موجودگی اور بل کے حق میں دیئے گئے 98ووٹوں کے مقابلے میں پڑنے والے 163ووٹوں سے ایک جانب میاں نواز شریف کے سرپر لٹکی تلوار ہٹتی محسوس ہوئی، دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے مسلسل دیا گیا یہ تاثر بے وقعت ہوگیا کہ حکمراں پارٹی میں بغاوت کی کیفیت ہے اور ارکان کی خاصی بڑی تعداد دوسری پارٹیوں میں شمولیت کے لئے پرتول رہی ہے۔ یہ تاثر اس بنا پر نمایاں ہوا کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں حاضری، خصوصاً سرکاری بنچوں کے اراکین کی حاضری کچھ عرصے سے بہت کم تھی اور کئی مواقع پر کورم بھی پورا نہ ہوسکا۔ وزراء بھی ایوانوں سے غائب رہے جس کا خاص طور پر چیئرمین سینیٹ نے نوٹس لیا اور انہوں نے کئی بار سخت ریمارکس دیئے۔ منگل کے اجلاس میں اپنے اپنے اراکین کی شرکت یقینی بنانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے خاصی تیاریاں کی گئی تھیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کی صدارت کرنے سے قبل ایک ظہرانے کا اہتمام بھی کیا تھا مگر ایوان کے دونوں جانب سے ارکان کی اتنی تعداد ضرور غیرحاضر تھی جسے قابل نظر اندازی نہیں سمجھا جاسکتا۔قومی اسمبلی کے 342رکنی ایوان میں حکومت اور اتحادیوں کے 50اور اپوزیشن کے 24ارکان کی غیر حاضری دونوں فریقوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگرچہ حکومت کے بعض ارکان گھریلو شادی جیسی اہم مصروفیات کے باعث نہ آسکے اور اتحادی جماعتوں کے 188میں سے 165ارکان شریک ہوئے تاہم 159نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ اتحادی جماعتوں کے 25ارکان میں سے 23غیر حاضر رہے جن میں مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی بھی شامل ہیں جبکہ اپوزیشن کے 118ارکان میں سے غیر حاضر رہنے والے 21ارکان میں تحریک انصاف کے عمران خان بھی شامل ہیں۔ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے اپوزیشن کے حق میں ووٹ دے کر اپنے سیاسی رخ کی سمت واضح کر دی مگر مجموعی طور پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی پارٹی سے وابستگی اور حکمران جماعت پر میاں نواز شریف کی مضبوط گرفت واضح ہوئی ہے۔ اس وقت، کہ عام انتخابات میں تقریباً ساڑھے نو ماہ باقی ہیں ہمارے سیاست داں اگر بعض ٹھوس امور پر توجہ دیں تو دوررس مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ ان امور میں سرفہرست ایسی ترقی پسندانہ اقتصادی پالیسی وضع کرنا ہے جس کے اصول مستقبل کی ہر حکومت کیلئے ترجیح اوّل ہوں۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن شیڈول اور ضابطہ اخلاق کی تیاری کیلئے بھی تمام مکاتب فکر سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اگر میعاد حکومت کا مستقل شیڈول بناکر انتخابی مہم، انتخابات کی تاریخوں منتخب نمائندوں کے لئے ہوم ورک وغیرہ کی مہلت اور حکومتی میعاد کے آغاز و اختتام کا وقت متعین کرنے کی کوئی صورت نکالی جاسکے تو عوام کو مسلسل اضطراب کی کیفیت سے بڑی حد تک نکالا جاسکے گا۔

تازہ ترین