پہلے آپ یہ تین شعر پڑھ لیجے۔یہ شعر ظفر اقبال کے ہیں کہ ایسے شعر ظفر اقبال ہی کہہ سکتے ہیں۔ وہ شعر یہ ہیں۔
یہ دیکھنا ہے کہ رہتاہوں قائم اس پہ بھی کب تک
نئی جو طرز و روش اب میں اختیار چکا ہوں
یہ فیصلہ ابھی میں خود بھی کر نہ پایا ہوں شاید
کہ انتظار میں ہوں یا کہ انتظار چکا ہوں
اور پھر
کسی کو یاد نہیں اصل شکل تھی مری کیسی
کہ سب کے سامنے اتنے تو روپ دھار چکا ہوں
یہ ہے زبان کا تخلیقی استعمال ۔اسے آپ تخریبی استعمال بھی کہہ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی ایسی تخریب بھی ہوتی ہے جس کے بطن سے تعمیر کے نئے راستے نکلتے ہیں۔ اور اگر آپ چاہیں تو اسے زبان کا تفریحی استعمال بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تفریح بھی تو انسانوں کی زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے ۔ بہر حال ،یہ اپنے اپنے مزاج اور اپنی اپنی افتاد طبع کی بات ہے ۔ جیسے جس کے دھیان میں آئے ، یا آئی۔ اب یہ نہ سمجھ لیجے کہ مجھے یہ شعر اپنے سیاست دانوں کی نئی سر گرمیوں پر یاد آئے ہیں کہ اس طرح کی سر گرمیاں تو ہم شروع سے ہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔لوٹے کب پیدا نہیں ہوئے ۔ بلکہ یہ لوٹے کی اصطلاح آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اختراع کی گئی تھی ۔ لیکن اس زمانے میں اسی معنی میں ایک اور اصطلاح بھی استعمال کی جا تی تھی ۔ وہ اصطلاح تھی ” تھالی کا بینگن “ اس اصطلاح کی عمر لوٹے کی اصطلاح سے بھی زیادہ ہے ۔ دراصل لوٹے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک پیندے والا لوٹا جس کے تلے میں گول گھیرا سا ہو تا ہے جو اسے لڑھکنے نہیں دیتا۔ دوسرا لوٹا بے پیندے کا ہو تا ہے۔ اور یہ بے پینڈے کا لوٹا ہی ہوتا ہے جو جدھر کی ہوا ہوتی ہے ادھر کو لڑھک جا تا ہے ۔اس لئے اسے ”بے پیندے کا لوٹا“ کہتے ہیں ۔ اورہاں، یہ جو شعر میں نے لکھے ہیں ان کا تعلق اپنے مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی نہیں ہے۔ان کاتو اب ضمیر جاگا ہے۔اگرچہ کچھ دیر سے جاگا مگر جاگ تو گیا ہے،چاہے وزارت خارجہ گنوا کر ہی جاگا ہو۔وزارت گنوا کر انہیں وہ باتیں بھی یاد آنے لگی ہیں۔۔یا نظر آنے لگی ہیں۔۔ جو حکومت میں رہتے ہوئے نظر نہیں آتی تھیں۔ابھی کل ہی انہوں نے نیشنل پریس کلب کے” میٹ دا پریس“ پروگرام میں کہا ہے کہ ”ملک میں امن وامان کی صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے۔بجلی اور گیس کا شدید بحران ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بحران اور بھی شدید ہو جا ئے گا ۔ہمیں بجلی بالکل نہیں ملے گی ۔مہنگائی اور بے روز گاری عام ہے ۔کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ بے ایمانی اور بد عنوانی کا دور دورہ ہے۔ ہر محکمے نے عام آ دمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اور حکومت غیر ملکی امداد اور قرضے دینے والوں کے اشاروں پر چل رہی ہے۔“کتنی سچی اور اچھی باتیں کی ہیں مخدوم صاحب نے۔ مگر بزرگ کچھ اور بھی کہہ گئے ہیں۔ بزرگ ایسی باتوں کو مار پیچھے پکار کہتے تھے ۔اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ حکومت میں رہتے ہوئے واقعی کچھ نظر نہیں آتا۔ حکومت سے نکلتے ہی سب کچھ نظر آنے لگتا ہے ۔گویااپنی نظر ٹھیک رکھنا ہو تو حکومت سے دور دور ہی رہو۔ یہ تو طے ہے کہ مخدوم صاحب باتیں کرنا خوب جانتے ہیں۔ تقریر بھی زبردست کر لیتے ہیں۔ جنرل مشرف کی قومی اسمبلی میں انہوں نے جو زور دار تقریر کی تھی وہ ہمیں آج تک یاد ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سب سے اچھی اور سب سے موثر تقریر ان کی ہی تھی۔ اس پر ہمیں ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی یاد آگئے تھے۔ ایوب خاں نے بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن کرائے تو بڑے مخدوم صاحب بھی امیدوار بن گئے ۔ اس سے پہلے سیاست سے ان کا دور دور کا ہی تعلق تھا۔اس الیکشن میں امیدواروں پر یہ پابندی تھی کہ وہ کسی کھلے میدان میں تقریر نہیں کر سکتے۔ کسی بند کمرے یا کسی ہال میں ہی تقریر کر کے اپنا پروگرام ووٹروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ بڑے مخدوم صاحب نے کبھی بند کمرے میں بھی تقریر نہیں کی تھی ۔وہ بہت پریشان تھے ۔ اس وقت امروز اور پاکستان ٹائمز کے رپورٹر منظور ملک نے ان کی مدد کی۔ مدد اس معنی میں کہ منظور ملک نے مخدوم صاحب کی تقریر لکھی اور انہیں اس تقریر کی ریہرسل بھی کرائی۔یہ اور بات ہے کہ اس جلسے میں تقریر کم کی گئی تھی اورپوڈیم پر گھونسے اورمکے زیادہ مارے گئے تھے۔ لیکن بعد میں بڑے مخدو م صاحب بھی منجھے ہوئے سیاست داں بن گئے تھے ۔اور پھر وہ ایوب خاں سے لے کر ذوالفقار علی بھٹواور ضیاء الحق سب کے ہی قریب رہے۔ حتی کہ گورنر بھی بن گئے۔ اب آ خر میں یہاں شاہ محمود قریشی صاحب سے ایک گزارش بھی کرنا ہے ۔ان کے شہر ملتان میں ملتان کالج آف آرٹس کے طلبہ اور طالبات نے کئی دن سے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ کینیڈا سے آئے ہوئے ان کے ایک استاد کی ملا زمت ختم کر دی گئی ہے ۔طلبہ کہتے ہیں کہ اس استاد نے انہیں جو کچھ پڑھایا اور سکھایا ہے وہ کسی اور استاد نے نہیں پڑھایا ۔ اس استاد نے آرٹس کی وسیع دنیا سے انہیں روشناس کرایا ہے۔ طلبہ کے احتجاج کے باوجودکالج کے پرنسپل اور یونیورسٹی کے وائس چانسلرطلبہ کا مطالبہ کیوں نہیں مان رہے ہیں؟ اس کی تحقیقات ضروری ہیں ۔خواہ مخواہ طلبہ کا نقصان ہو رہا ہے ۔