برسوں قبل میرا تعارف ڈیرہ غازی خان کے ایک مرد طرح دار‘ حافظ عبدالکریم سے ہوا تھا۔ سادہ پرکشش سی شخصیت‘ اور روایتی علما جیسے خدوخال رکھنے والی اس شخص سے مل کر مجھ پر کھلا تھا کہ وہ ذرا مختلف قسم کا ”مولوی“ ہے۔ ایسا جس کی سوچ کا افق بے حد وسیع ہے‘ جو خدمت خلق اور فلاح انسانیت کا جنون لئے پھرتا ہے اور جسے یقین ہے کہ جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کے بغیر معاشرے میں معنی خیز اور دیرپاتبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ میں نے حافظ صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی وقت ملا تو اُن کے تعلیمی ادارے دیکھنے ضرور آؤں گا۔
دوسرا قرض ”علامہ اقبال اور ڈیرہ غازی خان“ کے مصنف ہاشم شیر خان ایڈووکیٹ سے کیا گیا یہ وعدہ تھا کہ میں اولین فرصت میں اُن کے ہاں آؤں گا اور محمد رمضان خان عطائی کے مزار پر حاضری دوں گا جنہیں علامہ اقبال نے اپنی معروف رباعی ”تو غنی ازہر دو عالم من فقیر“ عطاکی تھی۔ ہاسم شیر خان مسلسل مجھے اپنا وعدہ یاد دلارہے تھے۔ گزشتہ دنوں میں دبئی میں تھا۔ ”مکہ مدینہ“ کی تقریب کے دوران ایک صاحب نے کہا۔ ” آپ ہمیں محمد رمضان عطائی والا واقعہ سنائیں“۔ میں نے واقعہ تو سنادیا لیکن وعدے کی کسک کئی گنا بڑھ گئی۔
دبئی سے واپس آتے ہی میں نے ڈیرہ غازی خان کا قصد کرلیا۔ پی آئی اے کا طیارہ سہ پہر تین بجے ڈیرہ غازی خان پہنچا تو ڈھلتی دھوپ میں ابھی تک جوانی کی چمک موجود تھی۔ لاؤنج میں گورنر سردار لطیف کھوسہ سے ملاقات ہوگئی جو پی پی پی کے امیدوار کی انتخابی مہم پر تھے۔ اپنے رفقا ارشاد عارف‘ قدرت الله چوہدری اور رؤف طاہر کے ہمراہ سرکٹ ہاؤس تک پہنچتے پہنچتے‘انتہائی آرام دہ گاڑی کے باوجود اچھی خاصی ورزش ہوگئی کہ سڑکیں ادھڑی ہوئی تھیں۔ آہستہ خرامی کے باوجود گاڑی کے ٹائرز زمین پر ٹکنے نہیں پارہے تھے۔ ڈی جی خان کے آر پی او ‘ ڈی آئی جی احمد مبارک سے تعارف ٹیلی فونک رابطوں تک محدود تھا۔ وہ ملے تو اندازہ ہوا کہ فکر و دانش اور گفتگو کا فن‘ کسی خاص طبقے کی میراث نہیں۔
قیس ہو‘ کوہ کن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
ڈیرہ غازی خان انتخابی بخار میں مبتلا تھا لیکن درجہٴ حرارت کچھ زیادہ نہ لگا۔ شہر مفلس کی قبا کی طرح ادھڑا پڑا تھا اور بخیہ گری کا عمل سست لگا۔ ایک سرکاری اہلکار بڑے اعتماد سے کہنے لگا۔ ”آپ جولائی میں تشریف لایئے گا۔ آپ کو ایک نیا شہر نظر آئے گا“۔ الله کرے ایسا ہی ہو لیکن ”وعدہ فردا“ عوام کے لئے کوئی کشش نہیں رکھتا۔ وہ حال میں زندہ رہتے ہیں اور حال اچھا نہیں۔ سردار فاروق لغاری مرحوم برسوں اقتدار کے ایو انوں میں رہے۔ چار سال سے زائد عرصے تک پاکستان کے صدر رہے۔ اس عہد صدارت میں اُنہیں کچھ عرصہ ایسا بھی ملا جب وہ مختار کل تھے۔ چاہتے تو ڈیرہ غازی خان کی تقدیر بدل کے رکھ دیتے لیکن سرداری کو صدیوں سے لاحق ایک بیماری یہ ہے کہ وہ بیداری کو بیزاری کی حد تک ناپسند کرتی اور اپنی رعایا کو ذلت و خواری میں مبتلا رکھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اپنے زیر تسلط علاقے میں تعلیم کا فروغ کبھی ان کی ترجیح نہیں بنتا کیوں کہ تعلیم آنکھیں کھول دیتی‘ دماغوں کو نئی سوچ دیتی‘ دلوں میں نئے عزائم کی فصل بوتی اور قلب و نظر کو آگہی عطا کرتی ہے۔ بیداری کے یہ تمام اجزاء سرداری کے قلعے کے لئے ضرب کاری کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اس کے جلال و جمال کا چراغ صرف ناخواندگی ‘ کم علمی اور جہالت کی تاریکیوں میں ہی جلتا ہے۔
سردار فاروق احمد خان لغاری کے انتقال سے خالی ہونے والی نشست پر تین توانا امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ ”ق“ لیگ کے علامتی ٹکٹ کے ساتھ مرحوم سردار کے فرزند‘ سردار اویس احمد خان لغاری‘ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سردار شبیر خان لغاری اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حافظ عبدالکریم۔ سردار اویس اسے اپنی موروثی نشست خیال کرتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں فاروق لغاری 45370 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ دھاندلی کے سنگین الزامات اب تک عدالتوں میں فیصلہ طلب پڑے ہیں۔ حافظ عبدالکریم نے 41894 اور پی پی پی کے سردار شبیر خان لغاری نے 36401 ووٹ حاصل کئے تھے۔ فاروق لغاری نے یہ نشست ”ق“ کے ٹکٹ پر نہیں‘ ذاتی حیثیت میں جیتی تھی۔ آج بھی مقابلہ تین امیدواروں کے مابین بتایا جارہا ہے۔ دو سرداروں کے درمیان ایک غیر سردار‘ اپنے کردار اور اپنی خدمات کو دستار فضیلت بنائے برسرمیدان ہے۔دیکھیے ڈیرہ غازی خان کے لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے دعووں کے باوجود‘مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے اپنا وزن سردار اویس لغاری کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ کوئی اکتالیس برس قبل 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ایک درویش مزاج مرد حق‘ ڈاکٹر نذیر احمد نے سائیکل پر مہم چلاتے ہوئے‘ فاروق احمد خان لغاری کے والد سردار محمد خان لغاری کو شکست دے کر ایک تاریخ رقم کی تھی۔ آج کی جماعت اسلامی‘نعرہ ہائے انقلاب کے باوصف‘ سردار محمد خان لغاری کے پوتے کی حمایت کرکے تاریخ کا پرانا قرض چکانے اور اپنے حصے کی نئی بیاض سیاست لکھنے کا اعلان کرچکی ہے۔مجھے انتخابات سے کہیں زیادہ حافظ عبدالکریم کے قائم کردہ درجن بھر تعلیمی اداروں سے دلچسپی تھی۔ لاہور سے اپنے ہمراہ گئے رفقاء کی معیت اور سینئر مقامی صحافی مظہر لاشاری کی راہنمائی میں صرف تین ادارے ہی دیکھے جاسکے۔ یہ تینوں حافظ صاحب کے جذبہٴ بے اختیار شوق کی تابناک مثالیں ہیں۔ سرکاری اسکولوں سمیت‘ ڈیرہ غازی خان میں کسی تعلیمی ادارے کی عمارت‘ ان عمارات کے ہم پلہ نہیں۔ اسلامک گرلز کالج‘ (کلیتہ البنات) ڈی جی خان کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جہاں بی اے / بی ایس سی تک تعلیم دی جارہی ہے۔طلبا کے لئے عمار بن یاسر ہائی اسکول کو دیکھ کر ہی علم کی عظمت و رفعت کا تصور جاگ اٹھتا ہے۔ کشادہ کلاس رومز‘ اچھا فرنیچر‘ صاف ستھراماحول‘ سائنس اور کمپیوٹرلیبارٹریز‘ مساجد‘ کھیل کے میدان‘ تمام سہولتوں سے آراستہ ہاسٹلز اور وہ سب کچھ جو کسی معیاری درس گاہ کے لئے ضروری ہے۔ انڈس ہائی وے کے کنارے آپ کو ایک عظیم الشان عمارت نظر آئے گی۔ یہ حافظ عبدالکریم کے جنون کا ایک شاہکار ہے۔ تدریسی اور رہائشی بلاکس پر مشتمل‘ کئی ایکڑقطعہ اراضی میں کھڑی یہ عمارت‘ ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی کی ہے جسے دیکھ کر پاکستان اور پاکستانیت پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اب تک اس منصوبے پر بیس کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں۔ عمارت مکمل ہو چکی ہے۔ فی الحال اس کا ایک حصہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کو مفت فراہم کردیا گیا ہے جہاں سالانہ تین سو طلبا تربیت پائیں گے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
بے شک یہ عظیم الشان عمارت‘ خون جگر کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ یہ ڈیرہ غازی خان میں پہلی یونیورسٹی ہوگی اور اس کا سہرا کسی سردار نہیں‘ ایک صاحب کردار کے سر بندھے گا۔ حافظ صاحب کوئی نامور قومی شخصیت ہوتے تو اُن کی قائم کردہ اس یونیورسٹی کے بھی بڑے چرچے ہوتے لیکن ڈیرہ غازی خان کے جنگل میں مورپنکھ پھیلائے کھڑے اس عمارت کو کون دیکھے؟ حافظ صاحب کے رفاہی اور فلاحی کاموں کے لئے ایک کتاب چاہئے۔ حالیہ سیلاب میں اس شخص نے تن تنہا وہ کچھ کیا جو بڑی بڑی جماعتیں نہ کرسکیں۔ ہزاروں یتیم اور نادار طلبہ و طالبات ان کے اداروں میں مفت تعلیم پارہے ہیں۔
حافظ عبدالکریم صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی کا سورج تعلیم کے افق سے ہی طلوع ہوگا۔ وہ ڈیرہ غازی خان میں سرسید احمد خان کی فکر و عمل کی راہ پر چل رہے ہیں۔ سیاست اپنے معیار اور پیمانے رکھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے کچھ پوچھنا لاحاصل ہے کہ وہ ہر بات کی منہ توڑ دلیل رکھتے ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی کو یہ ضرور واضح کرنا چاہئے کہ اُس نے کن اوصاف حمیدہ اور خدمات عالیہ کے طفیل سردار اویس خان لغاری کو حافظ عبدالکریم پر ترجیح دی ہے؟ یا حافظ صاحب کا ناقابل معافی ”گناہ کبیرہ“ صرف یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ رکھتے ہیں؟