کراچی(ٹی وی رپورٹ)قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ایک کے بجائے پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کرالیں تو انتخابات میں تاخیر سے بچ سکتے ہیں،انتخابی اصلاحات بل پارلیمنٹ نے منظورکیا،ذمہ دارسب ہیں، پیپلز پارٹی نے مردم شماری پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کرنے کی تجویز دی ہے، حکومت ہماری تجویز مان جائے تو شاید پیپلز پارٹی سینیٹ میں بل پر ووٹ دینے کیلئے تیار ہوجائے، اپوزیشن نے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی بات کی کس لیے مخالفت کی،کوئی ٹی وی چینل نہیں بتارہا ہے،حکومت کو دھرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لانا چاہئے تھا،دھرنے پر فیصلے وزیراعظم ہاؤس یاجاتی امراء کے بجائے جی ایچ کیو میں ہورہے تھے،دھرناپنجاب سے وفاق پر یلغار تھی،احسن اقبال نے معاہدہ پر دستخط نواز شریف کے کہنے پر کیے ہوں گے،سوشل میڈیا پر پارلیمنٹ کے خلاف سازش ہورہی ہے،نواز شریف پر کوئی اعتبار نہیں کرسکتا،نواز شریف حکومت فوج پر انحصار کررہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کو ان کیخلاف محاذ بنانے کا کہہ رہی ہے،حدیبیہ کیس کھل گیا تو پھر سب فارغ ہیں،اسحاق ڈار کا حلفی بیان ہی ان کیلئے کافی ہوگا،شریف برادران اسحاق ڈار کو پاکستان واپس نہیں لوٹنے دیں گے،اسحاق ڈار پاکستان واپس آیا توا س کی جان خطرے میں ہوگی۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ، دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب اور دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ بھی شریک تھے جبکہ رکن پنجاب اسمبلی نظام الدین سیالوی اور پی ایف یو جے کے صدر ناصر ملک سے کی گئی گفتگو بھی پروگرام میں شامل تھی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حمید الدین سیالوی کے پاس جانے کے بارے میں حتمی بات نہیں کرسکتا، سیالوی صاحب کے تحفظات کو ضرور دور کریں گے، پنجاب میں دہشتگردی پر کافی حدتک قابو پالیا گیا ہے۔محمود شاہ نے کہا کہ جنرل باجوہ کو سیاسی قیادت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا۔امجد شعیب نے کہا کہ ڈی جی رینجرز نے اپنی جیب سے ایسے تیرہ افراد کو پیسے دیئے جن کے پاس واپسی کیلئے پیسے نہیں تھے،معاہدہ میں جنرل باجوہ کا نام آنا ضروری نہیں تھا۔میزبان حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے عہدے پر ایک سال مکمل ہوچکا ہے، جب وہ آرمی چیف بنے اس وقت نیوز لیکس کا اسکینڈل عروج پر تھا، ان کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک ٹوئٹ کیا پھر وہ ٹوئٹ واپس ہوگیا، حکومت کے ساتھ ان کی کوآرڈینیشن بھی ہم نے دیکھی، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں حکومت اور آرمی چیف اکٹھے نظر آتے رہے، چند دن پہلے راولپنڈی میں دھرنا ختم کروانے میں فوج کا کردار بھی زیربحث آرہا ہے۔حامد میر نے بتایا کہ برطانیہ کے معروف فوجی ادارے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نے کہا ہے کہ پاکستان فوج کی دفاعی ڈپلومیسی میں ایکشن زیادہ اور الفاظ کم بولے جاتے ہیں۔حامد میر کا کہنا تھا کہ حکومت اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہوگا لیکن تاریخ میں ہمیشہ لکھا جائے گا کہ جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم اور مریم اورنگزیب وزیراطلاعات تھیں تو پاکستان کی تاریخ میں ایسا بھی دن آیا تھا جب الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو بند کردیا گیا تھا، یہ فیصلہ کیوں کیا گیا اور کس نے کیا اس کی حکومت کو وضاحت دینی پڑے گی۔قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنے پر پیپلز پارٹی کا موقف واضح تھا، حکومت کو دھرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لانا چاہئے تھا اور پارلیمان میں ہی فیصلے کرنے چاہئے تھے،لیکن دھرنے پر فیصلے وزیراعظم ہاؤس یا جاتی امراء کے بجائے جی ایچ کیو میں ہورہے تھے، فوجی افسر جس طرح دھرنے والوں میں لفافے بانٹ رہا تھا اس کا پاکستان میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، دھرنے والے دعویٰ کررہے ہیں آرمی چیف نے اس معاملہ کو سلجھایا ،دوسری طرف شہباز شریف معاملہ سلجھانے کا دعویٰ کررہے ہیں جبکہ الجھایا بھی اس نے ہی تھا، یہ دھرنا دراصل پنجاب سے وفاق پر یلغار تھی، تحریک لبیک پنجاب حکومت سے جو معاہدہ کر کے فیض آباد چوک پہنچی وہ بھی سامنے آنا چاہئے، نواز شریف دھرنے پر وزیرداخلہ سے سوالات سے لے کر مجھے کیوں نکالا تک سوال ہی کررہے ہیں انہیں کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ فوج کو آرٹیکل 245کے تحت بلانا حکومت کا حق تھا، فوج کی طرف سے آرٹیکل 245کے تحت طلب کرنے پر شرائط لگائی گئیں حالانکہ وزیراعظم کی صوابدید تھی کہ فوج کس حد تک آئے گی، احسن اقبال نے دھرنا قیادت سے معاہدہ پر دستخط نواز شریف کے کہنے پر کیے ہوں گے، ن لیگ میں شاہد خاقان عباسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ ابھی تک نواز شریف کو وزیراعظم مانتے ہیں،جس طرح معاہدہ پر دستخط کیے گئے اور ویڈیوز چل رہی ہیں اس کے تحت تو سارا کام فوج نے کیا اور دھرنے والوں کو انعام بھی دے رہی ہے،سیاسی کارکنوں کو کب فوج نے واپسی کا کرایہ دیا، کیپٹن صفدر نے الزام لگایا ہے ان لفافوں میں پانچ پانچ ہزار روپے تھے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پارلیمنٹ کے خلاف سازش ہورہی ہے کہ انتخابی اصلاحات بل پارلیمان نے منظور کیا، اپوزیشن نے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی بات کی کس لیے مخالفت کی،کوئی ٹی وی چینل نہیں بتارہا ہے، اپوزیشن نے حافظ حمد اللہ کی ترمیم کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ اس میں مسیحیوں، ہندوؤں، سکھوں یا پارسیوں کو حلف سے استثنیٰ نہیں تھا،حافظ حمد اللہ نے بھی اپوزیشن کی یہ بات تسلیم کی،میں نہیں بتانا چاہتا کہ اس پر زاہد حامد نے کیا کہا، حکومت بے شک ساری پارلیمنٹ کو موردِ الزام ٹھہرائے کیونکہ ذمہ داری ہے تو سب کے ساتھ ذمہ داری ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے مردم شماری پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کرنے کی تجویز دی ہے، حکومت ہماری تجویز مان جائے تو شاید پیپلز پارٹی سینیٹ میں بل پر ووٹ دینے کیلئے تیار ہوجائے، نواز شریف کی حکومت تمام معاملات کے حل کیلئے فوج پر انحصار کررہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کو ان کیخلاف محاذ بنانے کا کہہ رہی ہے، نواز شریف پر کوئی اعتبار نہیں کرسکتا کیونکہ وقت آنے پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر قریبی ساتھیوں کو چھوڑ کر کنبے کے ساتھ سرور پیلس چلے جاتے ہیں، نواز شریف سے ہاتھ نہ ملانے کے عوض پیپلز پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کا ای سی ایل سے نام ن لیگ کے وزیرداخلہ نے ہٹایا، عدالت نے دیکھا حکومت نواز شریف یا کیپٹن صفدر کو ای سی ایل پر نہیں رکھتی جو امتیازی سلوک ہے، نواز شریف کے جو جرائم ہیں ان پر پہلے بندہ گرفتار بعد میں تفتیش ہوتی ہے، اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا گیا تو وہ باہرنکل گیا، حدیبیہ کیس کھل گیا تو پھر سب فارغ ہیں، اسحاق ڈار کا حلفی بیان ہی ان کیلئے کافی ہوگا، شریف برادران اسحاق ڈار کو پاکستان واپس نہیں لوٹنے دیں گے، اسحاق ڈار پاکستان واپس آیا توا س کی جان خطرے میں ہوگی،نواز شریف ن لیگ کے دو وزیراعظم، پانچ گورنر اور تین وزرائے اعلیٰ ہوتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حمید الدین سیالوی کے پاس جانے کے بارے میں حتمی بات نہیں کرسکتا، سیالوی صاحب کے تحفظات کو ضرور دور کریں گے، بطور سیاستدان اگر کسی کو میرے ایکشن، رویے یا بات پر تحفظ ہو تو اس کی وضاحت کرنا میرا فرض ہے، مجھے اپنے سمیت کوئی شخص نظر نہیں آیا جو قادیانیوں کو کافر نہیں مانتا ہو، عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے، اس معاملہ میں عقیدہ ختم نبوت سے زیادہ کچھ اور چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ سے ملاقات میں زاہد حامد نے ثابت کیا کہ جتنی حب رسول آپ میں ہے اتنی مجھ میں بھی ہے، تحریک لبیک والوں نے تسلیم بھی کیا کہ ہم آپ کو قصوروار نہیں سمجھتے، ہم آپ پر کوئی فتویٰ نہیں دیں گے، بات صرف اتنی ہے کہ ڈیڈ لاک بن گیا ہے تو آپ استعفیٰ دیدیں اور راجہ ظفر الحق کی رپورٹ میں بے گناہ ثابت ہوجائیں تو دوبارہ حلف اٹھا لیں۔وزیرقانون پنجاب کا کہناتھا کہ پنجاب میں دہشتگردی پر کافی حدتک قابو پالیا گیا ہے، صوبے میں رینجرز کی مدد سے آپریشن ردالفساد کافی موثر انداز میں ہوا، آپریشن رد الفساد میں دیگر سول و عسکری انٹیلی جنس ایجنسیو ں کے علاوہ سی ٹی ڈی کا بھی اہم کردار ہے۔دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ آرمی چیف سیکیورٹی معاملات پر وزیراعظم کے پرائم ایڈوائزر ہیں، دھرنے کے معاملہ پر آرٹیکل 245کے تحت فوج کو بلایا گیا تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک طرف مشورہ دیا کہ اس معاملہ کو کیسے ہینڈل کرنا چاہئے،دوسری طرف حساس عمارتوں پر ٹرپل ون بریگیڈ کے سپاہی تعینات کیے ، آرمی چیف کے مشورے پر جب مظاہرین سے مذاکرات کا فیصلہ ہوا تو جنرل باجوہ نے مذاکرات سے خود کو علیحدہ کرلیا، وزیراعظم نے وزارت داخلہ اور آئی ایس آئی کو مذاکرات کا ٹاسک دیا، آئی ایس آئی دھرنے کے معاملہ میں آرمی چیف کے نہیں وزیراعظم کے کہنے پر شامل ہوئی، آئی ایس آئی کے نمائندہ مذاکرات میں اس لئے موجود تھے کہ دھرنے والے ان پر اعتماد رکھتے تھے، ڈی جی رینجرز نے اپنی جیب سے ایسے تیرہ افراد کو ایک ایک ہزار روپے دیئے جن کے پاس واپسی کیلئے پیسے نہیں تھے۔امجد شعیب کا کہنا تھا کہ مظاہرین سے معاہدہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام آنا ضروری نہیں تھا، دھرنے والوں کی خواہش پر معاہدہ میں آرمی چیف کا نام شامل کیا گیا، حکومت نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، وزارت داخلہ اعتراض کرتی تو نام نکال دیا جاتا، آرمی چیف کے افغانستان، ایران ، سعودی عرب اور یو اے ای کے دورے ملکی سلامتی اور دہشتگردی سے متعلق تھے، یوم پا کستا ن کی پریڈ میں چین، سعودی عرب اور ترکی افواج کی شرکت سے دنیا پر واضح کیا گیا کہ پاکستان تنہا نہیں ہے۔دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ نے کہا کہ جنر ل قمر جاوید باجوہ خاموش مگر پروفیشنل و سرگرم جنرل ہیں، انہوں نے آپریشن ضرب عضب کو آپریشن رد الفساد کی صورت میں ملک کے اندرونی علاقوں تک پھیلایا، جنرل باجوہ نے پاکستان کی افغان پالیسی کو مزید واضح کیا، انہوں نے بارڈر پر باڑ کی تنصیب، فاٹا اصلاحات اور افغان مہاجرین کی واپسی اور ملک کے اندر دہشتگردی ختم کرنے کیلئے اہم اقدامات کیے، جنرل باجوہ کو سیاسی قیادت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا۔ پیر حمید الدین سیالوی کے صاحبزادے اور رکن پنجاب اسمبلی نظام الدین سیالوی نے کہا کہ سجادہ نشین صاحب نے زعیم قادری کو کہاہے کہ رانا ثناء اللہ استعفیٰ پیش کریں پھر بات ہوتی ہے، زعیم قادری کا موقف تھا کہ رانا ثناء اللہ آپ کے پاس حاضر ہو کر تمام تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے، ان کے خیال میں رانا ثناء اللہ خود بہتر طریقے سے تحفظات دور کرسکتے ہیں۔ نظام الدین سیالوی کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں اور بھی ذمہ داران ہیں، مذہب کے حوالے سے اس نازک نکتہ کو چھیڑنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے، ہمارا مقصد رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ نہیں بلکہ مذہب کے حوالے سے کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں ہونا چاہئے۔پی ایف یو جے کے صدر ناصر ملک نے کہا کہ ہما را حکومت سے مطالبہ ہے کہ پیمرا قانون کے سیکشن فائیو کو ختم کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی حکومت میڈیا کو بند نہ کرسکے، ہر شہری کا حق ہے کہ اسے ہر معلومات فراہم کی جائے، ہم عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کیلئے لڑ رہے ہیں، ہمارا احتجاج ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ، مطالبہ نہ مانا گیا تو احتجاج میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو شامل کیا جائے گا۔