اسلام آباد (طاہر خلیل )وزیر داخلہ احسن اقبال کے انکشافات نے فیض آباد دھرنے کے پس پردہ عواقب کا برملا اظہار کرکے پاکستان کے حال اور مستقبل کےضمن میں پنپنے والی سازشیں آشکار کردیں ۔ انہوں نے دھرنا انتظامیہ کے ساتھ حکومت کے سمجھوتے کا دفاع کیا ۔ جس کےبارے میں ایک عمومی تاثر قائم ہوا کہ چھ نکاتی معاہدے کے ذریعے پوری ریاست نے اپنی رٹ ختم کر دی اور ہجوم کے سامنے سرنڈر کر کے ایک غلط روائت کو جنم دیا۔ گزشتہ چار روز سے اس سمجھوتے کے ضمن میں حکومت پر سخت تنقید کی جاتی رہی کہ اس سے حکمران جماعت کیلئے نئی مشکلات پید اہوں گی اور کوئی شک نہیں کہ دھرنا انتخابی سیاست پر بھر پور اثر انداز ہوگا۔۔ سیاسی قیادت نے زمینی اور معروضی حقائق کا ادارک نہ کیا تو جان لیجئے کہ ایک دھرنا ختم ہوا، دوسرا دھرنا تیار ہورہا ہے ان اطلاعات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ نواز لیگ اور تحریک لبیک میں مستقبل میں ایک بڑی جنگ کی تیاری ہو رہی ہے ۔ تحریک لبیک نے انتخابات میں حصہ لینے کا پہلے ہی اعلان کر دیا ہے ۔ اور مولانا فضل الرحمنٰ نے بھی یہ کہہ کر تائید کی کہ کفریہ طاقتوں کوروکنے کیلئے دینی جماعتوں کا پارلیمنٹ میں آنا ضروری ہے ۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے ختم بنوت میں ترمیم کے معاملے پر بہت مضبوط موقف اپنایا تھا اور اس عمل کو پارلیمنٹ کے اجتماعی گناہ سے تعبیر کیا تھا ۔ مولانا میاں صاحب سے مطالبہ کرتے رہے کہ ختم بنوت کے معاملے میں نقب لگانے والے کے خلاف کارروائی ضروری ہے ۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے احسن اقبال دھرنا انتظامیہ کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط ثبت کرنے والوں میں شامل تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے کو ناپسندیدہ کہا۔ اور بدھ کی شب نیوز کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو عراق اور شام کی طرح مذہبی فسادات کی آماجگاہ بنانے کی گھنائونی سازش کا ذکر کرکے قوم کو خبردار کیاکہ ان نازک لمحات میں تدبر، اخوت ، اور حکمت کی ضرورت ہے ۔ یہ امر بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وزیر داخلہ جس وقت پاکستان کے خلاف پنپنے والی سازشوںکا تذکرہ کررہے تھے ۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے نے دہشت گردی کے خاتمے میں کامیابی کے بارے میں کئی خوش فہمیوں کا ازالہ کر دیا ، ایک حلقے کاکہنا ہے کہ دھرنے کے خاتمے میں سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک صفحے پر ہونے کا تاثر تو ضرور قائم کیا ۔ لیکن ملک میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں قومی قیادت نےجس عزم اور حوصلے کا اظہار کیا تھا، اس پر عمل درآمد ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان وزارت داخلہ یا حکومت بچہ نہیں بلکہ اسے تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر بنایا اور گزشتہ 40/50 برسوں میں جو بگاڑ ہماری نیشنل سیکورٹی پالیسی میں آیا تھا اس کو سنوارنے کیلئے گزشتہ تین برسوں میں کافی کام ہوا لیکن افسوسناک پہلو ہے کہ ہمارے ہاں سیکورٹی معاملات پر بھی سیاست کی جاتی ہے ۔ سیاسی قیادت نے زمینی اور معروضی حقائق کا ادارک نہ کیا تو جان لیجئے کہ ایک دھرنا ختم ہوا، دوسرا دھرنا تیار ہورہا ہے ۔ میاں نواز شریف سیاست کو نئے ماحول کے قالب میں ڈھالنے کی بات کررہے ہیں ، جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے کٹھنائیوں کی گزرگاہ کو تلخ و ترش باتوں سے درگزر کرکے صبر و تحمل اور بردباری سے طے کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کا دھارا تبدیل ہونے کو ہے محاذ آرائی دانشمندی نہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ قوم بھی جمہوریت سے برگشتہ ہو جائے ۔