مولانا فضل الرحمن صاحب کے قافلے پر لگاتار دو دن مہلک حملے کئے گئے ۔ اس سے قبل اے این پی والوں کو شکایت تھی کہ مذہبی جماعتوں والے بلا روک ٹوک بڑے بڑے جلسے جلوس کررہے ہیں۔ ان پر کوئی حملہ نہیں ہوتا اور ہمارے لوگوں کو محفوظ مقامات پر بھی نشانہ بنایا جاتاہے ۔ اس طرح یہ دلیل فراہم کی جارہی تھی کہ خود کش حملوں کے پیچھے مذہبی عناصر کا ہاتھ ہے۔ لیکن قصہ خوانی بازار میں جماعت اسلامی کے جلسے پر دہشت گردانہ حملے جس میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے اہم ترین رہنما شہید یا زخمی ھوگئے اور اب مولانا فضل الرحمن کے خلاف مسلسل حملوں کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ان حملوں کے پیچھے مذہبی عناصر نہیں بلکہ کسی ایسی تخریبی قوت کا ہاتھ ہے جو پاکستان میں افراتفری اور انتشار پھیلانا چاہتاہے اور عوام کو قیادت سے محروم کرکے منظم جدوجہد کا خاتمہ چاہتاہے ۔ حکومت پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا فرض ہے کہ اس خفیہ ہاتھ کو عوام کے سامنے بے نقاب کردیں ۔ پورے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر ملک گیر تخریب کاری کے لیے جتنے بڑے نیٹ ورک کی ضرورت ہے اس سے ہمارے سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس نیٹ ورک کا بے خبر رہنا ناقابل فہم ہے۔ اس لیے تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یا تو ہمارے انٹیلی جنس ادارے ایک بڑے اتحادی طاقت کے ملوث ہونے کی وجہ سے مصلحتاً خاموش ہیں یا خود ان تخریبی کارروائیوں کا حصہ ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی یا ملوث ہونے کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟رائے عامہ معلوم کرنے کے تمام ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں انتخابات کے نتائج کے طور پر چھوٹی جماعتیں نظر آتی ہیں لیکن پاکستانی عوام میں مذہبی رجحانات میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے جس کا مظاہرہ مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے اجتماعات کے علاوہ توہین رسالت کے خلاف احتجاج اور قرآن کریم کی توہین کے خلاف احتجاج کے موقع پر دیکھنے میں آتاہے۔ پاکستان میں ابتدا سے لے کر آج تک حقیقی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہی ہے جو کبھی کبھی اپنی مرضی کے سویلین افراد کو بھی شریک اقتدار کرلیتی ہے لیکن انہیں یہ گوارا نہیں ہے کہ سویلین حکمران بالادست حکمران بن جائیں۔ سویلین حکمرانوں کی پشت پر چونکہ رائے عامہ کی حقیقی قوت نہیں ہوتی ۔ اس لیے جب وہ کبھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف پالیسیاں اختیار کرنے لگتی ہیں تو بہ یک بینی و دوگوش ان کو اقتدار سے باہر کردیا جاتاہے۔ ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ بیرونی سرپرستوں کی مرضی کے مطابق چلتی ہے اور ان کی مرضی کی داخلہ ،خارجہ ،دفاعی ، معاشی اور تعلیمی پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔ اس لیے انہیں مکمل تحفظ حاصل ہوتاہے ۔
رائے عامہ میں بڑھتے ہوئے مذہبی رجحانات سے یہ قوتیں خائف ہیں کہ کہیں یہ قوتیں یکجا نہ ہوجائیں اور مل جل کر ملک میں رائے عامہ کی قوت سے ایک ایسی تبدیلی پیدا نہ کردیں کہ عوام سول ، ملٹری انتظامیہ اور اس کے سرپرستوں سے یکسر آزاد انہ روش اختیار کر لیں۔ رائے عامہ کی قوت کو سامنے لانے کے لئے عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنا اور ان کے بڑے اجتماعات منعقد کرنا ضروری ہے۔ بڑے اجتماعات کے انعقاد کو روکنے کے لئے خوف اور دہشت کی فضا پیدا کر کے عوام کو ان اجتماعات سے دور رکھنا اور عوامی لیڈر شپ کو راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر پولیس افسروں نے جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو بلا کر انہیں بتایا کہ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے سیکرٹری جنرل شبیر احمد خان صاحب اور جماعت اسلامی ضلع پشاور کے دو اہم لیڈر صابر حسین اعوان صاحب سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی ضلع پشاور کے موجودہ امیر بحراللہ صاحب ایڈووکیٹ طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور انہیں احتیاط کرنی چاہیے ۔ حال ہی میں پشاور میں جماعت اسلامی کا ایک بہت بڑا جلسہ عام منعقد ہوا تھا جس کا اہتمام کرنے میں انہی تین لیڈروں کا اہم کردار تھا ۔ یہ جماعت کے فیلڈ کے لیڈر ہیں۔ ان میں سے دو سابق ایم این اے ہیں اور تیسرے ضلع پشاور کے موجودہ امیر ہیں ان تینوں کو ہدف بنانے میں طالبان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی ۔ صرف ان لوگوں کو دلچسپی ہوسکتی ہے جو نہیں چاہتے کہ عوام کسی دینی ایشو پر اکٹھے ہوجائیں ۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام دونوں مل کر صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سب سے بڑی عوامی قوت ہیں۔ یہ دونوں صوبے اس وقت امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا نشانہ ہیں۔ اے این پی عوامی تائید سے محروم ہوچکی ہے آئندہ انتخابات میں کم ازکم ان دو صوبوں میں دینی جماعتوں کی کامیابی یقینی ہے اور پاکستان کو حصوں بخرو ں میں تقسیم کرنے کی سازش کے راستے میں دینی جماعتیں سدراہ ہیں۔ ایسی صورت میں یہ بالکل واضح ہے کہ جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کو نشانہ بنانے سے کن قوتوں کو فائدہ پہنچتاہے۔
ملک بھر کے تمام عوام کافرض ہے کہ مذہبی لیڈر شپ کو راستے سے ہٹانے کی کوششوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجائیں اور ملک و قوم کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کریں۔ اس وقت ملک جس شدید بحران میں مبتلا ہے اس بحران سے ملک کو مل جل کر متحدہ کوششوں سے نکالاجاسکتاہے۔
عوامی جلسوں اور ریلیوں میں بم دھماکے کا ایک بڑا مقصد عوام کو عوامی جلسوں سے دور رکھنا ہے تاکہ ملک پر بلاشرکت غیرے انتظامیہ کی گرفت مضبوط رہ سکے ۔ مصر اور تیونس میں عوامی طاقت کے مظاہرے کے بعد سول اور ملٹری آمر اور ان کے سرپرست عوامی طاقت سے مزید خائف ہوگئے ہیں۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ مل جل کر ان قوتوں کا سراغ لگائیں جو دھماکوں کے ذریعے عوام کو خوف زدہ کرکے انہیں مساجد میں دینی اجتماعات اور عوامی جلسوں سے دوررکھنا چاہتے ہیں تاکہ ملکی اُمور اور معاملات سے عوام الناس کو بے دخل کردیں اور ملکی معاملات چلانے پر ایک مخصوص اور محدود طبقے کی اجارہ داری برقرار رہے۔ سازشی قوتوں اور مخصوص طبقے کی گرفت سے نکلنے کے لیے عوام کا فرض ہے کہ ملکی معاملات میں عملی دلچسپی لیں اپنی پسند کی کسی اچھی جماعت کے ساتھ منسلک ہوجائیں ۔ تخریبی قوتوں کی سازشوں سے ملک کو بچانا اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ سوات میں عوام کو اس کا تجربہ ہوچکاہے کہ جب بھی محب وطن افراد نے کسی تخریبی گروہ کے بارے میں متعلقہ افسران کو معلومات پہنچائی ہیں خود وہ افراد نشانہ بنے ہیں۔ ان حالات میں ملک و قوم کو بچانے کی پوری ذمہ داری خود عوام کے کاندھوں پر آپڑی ہے۔ گلی ،محلے کی سطح پر اپنا دفاع کرنے کی کمیٹیاں بنانا اور ان دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے عوام کو منظم کرنا ‘ انہیں تخریبی کاروائیوں سے محفوظ رکھنا اور مثبت تعمیری سرگرمیوں میں عملی طور پر شرکت پر آمادہ کرنا ان دفاعی کمیٹیوں کی ذمہ داری ہو۔ملک کے پڑھے لکھے درمیانہ طبقے کے افراد کا فرض ہے کہ غیر جانبدار تماش بین اور محض تجزیہ کاربنے رہنے کی بجائے اپنے محلے کے لوگوں کو منظم کرنے کے لیے پیش قدمی کریں۔ عوام کو منظم کرنے کا کام ملک و قوم کی فلاح کا کام بھی ہے اور اللہ کی خوشنودی کا کام بھی ہے۔ یہ کام جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتاہے اور ہماری قوم جس مرحلے سے گزر رہی ہے اس مرحلے پر یہی جہاد وقت کی ضرورت ہے۔