• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہب کو پھر سیاسی ایجنڈے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، رضا ربانی

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں)ممتاز سیاستدان جاوید ہاشمی کی کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نےبطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کےمابین محاذ آرائی وفاق کیلئے خطرہ ہے، تمام ادارے آئینی حد میں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کو پھر سیاسی ایجنڈے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، ملک نجی عسکری لشکر پروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر سعد رفیق کا کہنا تھا کہ 16؍ وزرائے اعظم کو نکالا گیا، ہر بار وزیراعظم ہی غلط ہوتا ہے، کسی دوسرے سربراہ کو کیوں نہیں نکالا جاتا۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہمیں آئین کی حکمرانی چاہیے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ پا کستا ن جب سے بنا حالات ایسے ہی چلے آرہے ہیں۔ تقریب سے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی کا مزید کہنا تھا کہ ریاست نے ایسے کام کیے کہ آج انتہاپسندی نظر آتی ہے، ریاست کو اندرونی و بیرونی خطرات ہیں، حکومتوں او ر عوام کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف اقوام متحد ہوجا ئیں ، ملک نجی عسکری لشکروں کو پروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا،فیض آباد میں کیا ہوا،ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں بلکہ مکمل ختم کیا گیا،ریاست کی حکمرانی کو ختم کرکے ہم کس چیز کو جنم دے رہے ہیں،آپ ریاست میں وار لارڈز جنم دے رہے ہیں، پاکستان وار لاڈز کا متحمل نہیں ہوسکتا، شایدبھول گئے ہیں کہ ٓائین کا آرٹیکل 256 بھی ہے،اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پرائیویٹ لشکر اور آرمی نہیں بن سکتے،اس آرٹیکل کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی،نہ صرف وفاقی دارالحکومت بلکہ دیگر جگہوں پر بھی خلاف ورزی ہوئی،کیا ہم نے رینجرز اور پولیس والوں کے بیانات نہیں پڑھے، کہ دھرنے والوں کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود تھا،رینجرز کا جو سپاہی آنکھ کھو بیٹھا ریاست نے اس کی محض معمولی مرہم پٹی کی،کیا یہ ظلم نہیں،کیا ریاست ڈیوٹی سے انحراف نہیں کر رہی، جاوید ہاشمی کی جدوجہد اس ریاست کیلئے نہیں بلکہ ایسے وفاق کیلئے ہے جس مین قانون اور آئین کی حکمرانی ہو،جہاں ادارے مضبوط ہوں،رضا ربانی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ریاست نے ضیاء دور میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی،تاریخی عمل میں طلبا تنظیمیں، ٹریڈ یونینز اور سوچنے والا طبقہ پیراڈائم بناتا ہے جو مارشل لاء کے خلاف کھڑا ہوتا ہے،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ترقی پسند تنظیموں پر پابندی لگائی گئی اور انتہاپسند تنظیموں کو اجازت دی گئی،اسی لیے آج دہشتگرد کالجوں اور یونیور سٹیو ں سے پیدا ہو رہے ہیں،یہ صورتحال ریاست نے خود پیدا کی،وقت کی ضرورت ہے کہ عملی سیاست کو بہتر بنانے کیلئے طلبا تنظیموں پر عائد پابندی اٹھالی جائے،ریاست کو آج کئی اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ضروری ہے کہ تمام ملکی ادارے ایک پیج پر ہوں اور آئین کے تحت مقررہ دائرہ کار میں کردار ادا کریں،اداروں کے درمیان محاذآرائی وفاق کیلئے نقصان دہ ہوگی،تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے،ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈے کو بڑھانےکیلئے استعمال کیا جارہا ہے،آئین کا آرٹیکل دو کہتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے،آئین میں درج ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے اورپاکستان اسلام کے نام پربناتو پھر اسلام کو پاکستان میں کس سے خطرہ ہوسکتاہے۔؟ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیاسی جدوجہد کرنے والے لوگوں کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہیے،جاوید ہاشمی کی سیاسی اہمیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتا،ہم نے عدلیہ بحالی تحریک کیلئے اسلئے مارنہیں کھائی تھی کہ وہ غلط فیصلے کرے، چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ہم نے سوچا کہ عدلیہ آزاد ہوگئی ہے لیکن پھر ہمارے ہی خلاف فیصلے آنا شروع ہوگئے اورعوام کے منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا، عوام کو اس طرح کے فیصلے قبول نہیں،16 وزرائے اعظم کوالزامات لگاکرنکالا گیا،کیوں پرویزمشرف کا احتساب نہیں ہوا کیا کبھی کسی دوسرے ادارے کے سربراہ کونکالاگیا کیوں افتخار چودھری کے بیٹے کا احتساب نہیں ہوا، سعد رفیق نے کہا کہ جاوید ہاشمی کا مسلم لیگ سے جدا ہونا ہمارے لیے اذیت کا لمحہ تھا،جاوید ہاشمی سے میرا تعلق کبھی نہیں ٹوٹ سکتا،جاوید ہاشمی کے جانے کی ذمے دار مسلم لیگ تھی، جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان سر کا تاج ہوتے ہیں، جاوید ہاشمی کی سیاسی خدمات کو کوئی کم نہیں کر سکتا،انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی کی کتا ب میں سیاست میں فوج کے کردار پر تذکرہ ہے، فوجی آمریت اورفوج کے پیشہ ورانہ کردارمیں زمین آسمان کا فرق ہے،ہم جدوجہد کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، آئین کی سربلندی پرکوئی سمجھوتا نہیں کریں گے،نظریہ ضرور ت دفن نہیں ہوا اس کودفن کرنا ہوگا،نظریہ ضرورت کو پاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرے گی،فوج کا کردار ملک کی سلامتی کیلئے ہونا چاہیے، سیاست میں نہیں،سعد رفیق نے کہا کہ کوئی مصنوعی سیاسی جماعت زیادہ دیرتک نہیں چل سکتی،پی ایس پی کا کچھ نہیں بننے والا جومرضی کرلیں، چند لوگ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کریں گے،کب تک ایسا نظام چلے گا پاکستان اداروں کی باہمی لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا،ہم اپنی جماعتوں میں جمہوری رویوں کوپروان نہیں چڑھا سکے ،جماعتوں کوچلنے دیا جائے انہیں توڑا نہ جائے، جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب میں فوج کے سیاسی کردار پر بات کی،سب کو وہ سطریں پڑھنی چاہیےجو لوگ فوج کی سیاست میں بلواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کی بات کرتے ہیں ان کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہئے،فوج کی سیاست میں دلچسپی نہیں ہونی چاہیے،ایک سیاسی جماعت فیل ہوجائے تو دوسری جماعت آجاتی ہے،اگر فوج ناکام ہوجائے تو دوسری فوج کہاں سے آئے گی،افواج پاکستان کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں نہ اُسے متنازع بننا چاہیے،ملک میںآج بھی مکمل جمہور یت نہیں ،ملک میںپوری جمہوریت ہونی چاہیے، سیاست دانوں کو آزادی سے سیاست کرنے دی جائے ورنہ ملک کی آزادی اور سالمیت پر سمجھوتہ ہوگا،بینظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی تو آج کا پاکستان بہت مختلف ہوتا، دیوار سے لگایا تو پھر کیا کریں، وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہماری حکومت کا جرم یہ ہے کہ ہم سی پیک کیلئے اٹھاون ارب ڈالر کی امداد لائے،ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے کراچی کا امن کیوں بحال کردیا،ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے دہشتگردی کو تقریباً جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا،کچھ قوتوں نے پہلے بھی شب خون مارا مگر کامیابی نہیں ملی،انہیں آئندہ بھی کامیابی نہیں ملے گی۔سینیٹرافراسیاب خٹک نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت میں آئینی نظام سے بغاوت کی گئی،سیاست کرنا سیاستدانوں کا ہی کام ہے،ملک کو بچانے کیلئے ہمیں آئین کی حکمرانی چاہیے ،جب تک پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا تا احتساب کی ساری باتیں مذاق ہیں، کتاب کے مصنف اور ممتاز سیاستدا ن جاوید ہاشمی نے کہا کہ یہ کتاب میں نے 11سال پہلے مکمل کی جو میری روزانہ کی ڈائر ی پر مشتمل ہے، کتاب میں سارے واقعات آج کی صورتحال کی منظر کشی کرتے ہیں، پاکستان کے حالات ابتدا سے لے کر آج تک ویسے ہی ہیں، سیاستدان آج کے گرداب کے خود ذمہ دار ہیں، بھٹو کی پھانسی پر ہم کوئی احتجاج نہ کرسکے، انہوں نےفیض آباددھرنےکے دوران فوج کے کردارپر تنقید کرتےہوئے کہا کہ ایک جنرل کا ہزار ہزار روپے تقسیم کرنا سمجھ سے باہر ہے، عوام افواج پاکستان سے محبت کرتے ہیں، مگرانہیں حق حکمرانی دینے کیلئے تیار نہیں ،فوجی حکمران اطاعت کرنے والوں کو محب وطن اور اختلاف کرنے والوں کو غدار سمجھتے ہیں،ہماری سپریم کورٹ نے جو فیصلے سنائے وہ پوری دنیا میں مذاق بن گئے ہیں، پانامہ میں ایک جج کا نام بھی ہے کون اس جج سے پوچھے گا، جب تک کنٹرول کرنے والی قوتیں پیچھے نہیں ہٹتیں اس وقت تک بہتری ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ میری ہردفعہ سپریم کورٹ میں درخواست جاتی تھی،سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پانچ سال تک میری درخواست نہیں سنی، سعد رفیق نے ریلوے کی بہتری کیلئے معجزاتی کام کیا۔

تازہ ترین