• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق صدر مشرف کی خواہش اور ایک خط...معاشی حقائق…سکندر حمید لودھی

اس دفعہ ارادہ تھا کہ سالانہ بجٹ سے پہلے ماہانہ بجٹ کے طور پر حکومت نے حال ہی میں پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کے نرخوں میں جو اضافہ کیا ہے اس کے بارے میں کچھ لکھا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا بین الاقوامی جریدے ٹائمز میں شائع ہونے والا انٹرویو سامنے آگیا۔ جس میں انہوں نے اس خواہش کااظہار کیا ہے کہ پاکستان میں چونکہ قیادت کا فقدان ہے اس لئے میں پاکستان دوبارہ آکر صدر کے طور پر ملک کی قیادت کرنا چاہتا ہوں، اس وقت پاکستان انتہاپسندوں کی گرفت میں ہے اس سے بھی ملک کو نکالنا ضروری ہے۔ اس انٹرویو کی کئی چیزیں بڑی اہم ہیں لیکن ہمیں یہ بات حیرا ن کن لگی کہ ابھی تو لال مسجد اور بینظیر بھٹوکیس کے معاملات فائنل نہیں ہوئے، انٹرپول والے الگ سے ان کے پیچھے پڑنے والے ہیں اور برطانوی وزیراعظم نے اسلام آباد میں کہہ دیاہے کہ صدر مشرف کے بارے میں پاکستانی درخواست ملنے پر فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سب کچھ کے باوجود سابق صدر دو بارہ صد ر بننے کا سوچ رہے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بات کہ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے“ صحیح بھی ثابت ہوسکتی ہے لیکن ہم تو سابق صدر مشرف کی اس خواہش کو پٹرول اور ڈیزل کے حالیہ نرخوں میں اضافہ کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے دور میں واقعی بڑی مہنگائی ہوئی، دہشت گردی بڑھی، مسز بینظیر بھٹو کا افسوسناک واقعہ ہوا لیکن ان کے وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی ٹیم نے بڑی حکمت کے ساتھ نہ تو روپے کی قیمت کم ہونے دی اور نہ ہی پٹرول ، ڈیزل وغیرہ کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ کیا جس تیزی سے موجودہ حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 85روپے سے بڑھ چکی ہے جس میں مزید اضافہ (یعنی روپے کی قیمت آنے والے عرصہ میں ڈالر کے مقابلے میں مزید کم ہونے والی ہے) متوقع ہے کہ اب سرکاری طور پر ایک ڈالر کی قیمت سے زیادہ ریٹ پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کا مقرر کر دیا گیا گو کہ یہ ریٹ بھارت میں پٹرول کے ریٹ سے کم ہے۔
پہلے سے مہنگائی کے مارے لوگوں کے لئے کیا اس طرح کے اقدامات کرنا درست تھا۔ کیا اس سے ملک میں انرجی بحران کے ساتھ ساتھ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں پر مزید منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ ایسے حالات میں ہماری حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جاری ہے جس سے تین سال پہلے گو مشرف گو کے نعروں کے رخ بھی بدل سکتا ہے، ہمارا ملک موجودہ صورتحال میں ایک ایسے پوائنٹ پر کھڑا ہے جہاں جمہوریت کو بچانے کامرحلہ بھی ہے اور کسی نئے نظام یا آمریت کے مسلط ہونے کے خدشات بھی ہیں بظاہر آسمان پر ایسے کوئی بادل نہیں ہیں لیکن بادل تو اچانک ہی آیا کرتے ہیں، اس صورتحال میں جمہوریت بچانے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی مشکلات کا احساس کریں۔ عوام کو اب نعروں سے نہیں روٹی اور سکیورٹی کی فراہمی اور اس کے ساتھ ساتھ اچھی گورننس سے مطمئن کرنا ہوگا۔ ان تینوں چیزوں کے حوالے سے عوام کی اکثریت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے قطعی طور پر مطمئن نہیں ہے بلکہ عوام کی رائے ان کے بارے میں مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ شاید اس کے پس منظر میں سابق صدر پرویز مشرف کے دل میں دوبارہ پاکستان آکر صدر بننے کی خواہش بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے ان کے کریڈٹ میں اگر کچھ چیزیں جاتی ہیں تو کئی چیزیں ڈس کریڈٹ میں بھی جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس بزنس مین طبقہ ان سے خاصا مطمئن تھا۔
اس دور کی اقتصادی پالیسوں کو ان حلقوں میں اب بھی بہتر سمجھا جاتا ہے جبکہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر بزنس مین طبقہ کوئی زیادہ موثر اور مثبت رائے نہیں رکھتا۔ اس میں کرپشن، بدانتظامی، گورننس اور دیگرکئی ایشوز قابل ذکر ہیں۔ اس وجہ سے اب حال یہ ہے کہ پچھلے تین سالوں میں مختلف اشیاء کی قیمتوں اور مسائل میں اضافہ کی رفتار تیز ہوئی ہے جس کے لئے ایک بے نامی پمفلٹ کا کچھ حصہ درج کیا گیا ہے۔ پی پی پی کے دور سے پہلے آٹا فی کلو گرام 13روپے (اب 35روپے) پیاز فی کلوگرام 15روپے (اب 45روپے) چینی 21سے 25روپے فی کلو گرام (اب 66روپے) پٹرول 54روپے (اب 85روپے سے زائد فی لٹر) ڈالر 60روپے (اب 85روپے سے زائد) پمفلٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ عوام مر گئے پر… بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ سابق صدر مشرف نے بھی یہی کچھ پڑھنے کے بعد ٹائمز میگزین کو انٹرویو میں دوبارہ پاکستان آنے اور صدر بننے کی خواہش کا اظہار کیاہے؟ اقتدار کی خواہش کسے نہیں ہوتی؟ کیا صدر زرداری اور ہمارے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ، وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف حتیٰ کہ سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اس زمرے میں نہیں آتے، سب آتے ہیں لیکن عوام بیچارے تو اسی حال میں رہتے ہیں، یہاں ترقی اورخوشحالی اس رفتار سے نہیں ہوتی جیسے ہونی چاہئے کیونکہ جس ملک میں 40 فیصد سے زائد ٹیکس چوری، کرپشن اور لوٹ مار میں چلی جائے اور باقی 60 فیصد کا 80 فیصد ایلیٹ کلاس استعمال کرے، وہاں غربت ، بدامنی اور بیروزگاری جیسے مسائل حل کرنے آسان نہیں ہوتے۔ اس کے لئے قائداعظم کے درجے کی قیادت اور سوچ کاہونا ضروری ہے جو اس وقت کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی۔ ایسے حالات میں سابق صدر مشرف یہاں آ کر کیا کریں گے، کیا امریکہ، برطانیہ کی لابی انہیں کلیئرنس دے گی؟ اس حوالے سے مطلع صاف نہیں نظر آتا۔
ویسے بھی آج کل اسلام آباد میں ایئرمارشل (ر) اصغر خان کے تاریخی خط کے بعد ایک اور خط کی بازگشت بھی سرگرم ہے جس کے تحت پانچ چھ ماہ میں اگر حکومتی رویہ عدلیہ کے بارے میں تبدیل نہیں ہوتا تو پھر نئے الیکشن کا مرحلہ آسکتا ہے اور حکومت کا مار چ 2012 میں سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا خواب ادھورا بھی رہ سکتا ہے۔ اصغر خان صاحب کے خط کے بعد قوم پر جنرل ضیاالحق مسلط ہوئے تھے اور اب کیا ہوگا؟ یہ خط کس نے کس کو لکھا اور کیوں لکھا؟ یہ چیزیں آنے والے وقت پر واضح ہوجائیں گی۔ اس سے ہماری معیشت اور معاشی سرگرمیوں پر کتنا اثر پڑے گا اس بارے میں تو آنے والا وقت ہی بتائے گا؟
تازہ ترین