”پاکستانی قیادت کو رول ماڈل بننا چاہیے۔ وہ جو بات کرے‘ اس پر خود بھی عمل کرے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو بیرون ملک رکھی اپنی دولت واپس لانی چاہیے۔ انہیں اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو بیرون ملک سے اپنی دولت واپس لانا ہو گی۔“ عوام کے ذہنوں میں اور زبانوں پر تو یہ باتیں گاؤں گاؤں‘ شہر شہر اور گلی گلی عام ہیں۔ ملک کے نمائندہ ایوان میں یہ پہلی بار جاوید ہاشمی نے کہہ دیں اور حیرت ہے کہ اپوزیشن جو عام طور پر عوامی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے‘ اسے یہ باتیں بری لگیں اور حکومتی بنچوں سے ان کی تائید میں تالیاں بجائی گئیں۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جاوید ہاشمی کا تعلق اپوزیشن سے ہے اور چونکہ آج کل وہ پارٹی قیادت کے معتوب ہیں۔ اس لئے ان کے منہ سے نکلی ہوئی سچی باتوں کو بھی اپوزیشن کی حمایت نہ مل سکی۔ کوئی پسند کرے یا ناپسند۔ جاوید ہاشمی نے وہی کہا جو وقت کی آواز ہے۔
اگر حکمران طبقے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ان باتوں کو بروقت سمجھ لیں تو اس میں ان کی اپنی بھلائی ہے اور اگر نہیں سمجھیں گے‘ تو پھر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ یہ کسی وقت بھی چھلک پڑے گا۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو لبریز ہو جائے‘ تو نہ فوجیں اس کے چھلکاؤ کو روک سکتی ہیں۔ نہ حکومتوں کی طاقتیں اور نہ ہی لیڈروں کی مقبولیتیں۔ سب کچھ لرزنے لگتا ہے۔ چند عرب ملکوں میں اس کے جو مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں‘ وہ ان چیزوں کے لئے تھے جو ہمیں دستیاب ہیں۔ یعنی وہ صرف جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی مانگ رہے ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ دستیاب ہے اور جب ان ساری چیزوں سے فیضیاب عوام اٹھیں گے‘ تو ان کی بغاوت بھی رائج نظام کے خلاف ہو گی۔ ہمارا رائج نظام کیا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں اور جب اس کے خاتمے کے لئے عوام اٹھیں گے‘ تو ہدف کون بنے گا؟
اپنی حد تک جاوید ہاشمی نے اس گناہ پر عوام سے معافی مانگ لی ہے کہ انہوں نے ایک فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں حلف لیا تھا اور ساتھ ہی اپنے دونوں لیڈروں نوازشریف اور شہبازشریف سمیت ایسے تمام لیڈروں سے معافی مانگنے کے لئے کہا ہے‘ جنہوں نے مختلف اوقات میں فوجی حکمرانوں کا ساتھ دیا یا ان سے معاہدے کئے۔ انہوں نے صاف کہا کہ نوازشریف اور شہبازشریف کو پرویزمشرف سے معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے جانے پر معافی مانگنا چاہیے کہ انہوں نے 10سال جلاوطنی میں گزارے اور عوام آمریت میں پستے رہے۔ یاد رہے جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) کے وہ لیڈر ہیں‘ جنہوں نے 5 سال انتہائی تکلیف دہ حالات میں جیلوں کے اندر گزارے۔ فوجی حکومت کی طرف سے انہیں بھی معاہدوں اور مراعات کی مشروط پیش کشیں کی جاتی رہیں۔ لیکن انہوں نے آمریت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بجائے قید میں رہنا پسند کیا اور شاید ان کی یہی ”ادا“ قیادت کو ناگوار گزری ۔ کہاں جلاوطنی کے وقت انہیں پارٹی کی قیادت پیش کر دی گئی تھی اور کہاں آج وہ فراموش کردہ ساتھیوں میں شامل ہیں۔ اگر آج انہیں یاد بھی کر لیا جائے‘ تو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جو سیاسی راستہ اب انہوں نے اختیار کر لیا ہے‘ مسلم لیگ (ن) اس پر چلنے کا حوصلہ نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ جاوید ہاشمی کا نیا راستہ آزمائشوں‘ امتحانوں اور تکلیفوں کا راستہ ہے اور ہمارے روایتی سیاستدان وہ راستہ اختیار نہیں کیا کرتے۔ انہیں عوامی غیظ و غضب کی طوفانی لہریں دھکیل کر آزمائشوں کے راستے پر ڈالتی ہیں اور پھر اس راستے کی منزل بھی آزمائشیں ہی ہوتی ہیں‘ ان کے سوا کچھ نہیں۔
آمریت کا ساتھ دینے پر جن لیڈروں سے جاوید ہاشمی نے معافی کا مطالبہ کیا ہے‘ ان میں آصف زرداری کا نام نہ جانے کیوں شامل ہو گیا؟ انہوں نے ایک نہیں دو آمریتیں بھگتائی ہیں اور دو ایسی سول حکومتوں کا جبر برداشت کیا ہے‘ جن کے پیچھے آمریت کی طاقتیں کھڑی تھیں۔ انہوں نے نہ کسی کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ نہ کسی سے معاہدہ کر کے‘ بیرون ملک گئے اور نہ کسی کے ساتھ سودے بازی کر کے کوئی رعایت حاصل کی۔ ان کی مسلسل مردانہ وار مزاحمت پر تو انہیں میڈیا نے ”مردحر“ کا خطاب دیا تھا۔ وہ کس بات پر معافی مانگیں؟ معافی نہ مانگنے پر؟
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اب کرپشن اس پاورسٹرکچر کے اندر قابل قبول نہیں رہ گئی‘ جس کے بل بوتے پر ماضی میں سب نے مل کر لوٹ مار کے نظام کو چلا رکھا تھا۔ اب کئی ادارے عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے کرپشن کے خلاف ہو چکے ہیں۔ عدلیہ نے اس سے پہلے کرپشن اور آمریت کے خلاف اتنے بڑے‘ اتنے زیادہ اور اتنے مسلسل فیصلے نہیں کئے تھے‘ جتنے گزشتہ کچھ عرصے سے ہو رہے ہیں۔ فوج کے اندر کرپشن کے خلاف جذبات کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور آج کی فوجی قیادت ماضی کی طرح کرپشن کو ایک ناگزیربرائی سمجھ کر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس نوجوان ایم این اے کو بھی نہیں بھولنا چاہیے‘ جس نے دہری قومیت اور بیرون ملک سرمایہ اور کاروبار رکھنے والوں پر یہ پابندی لگانے کی تجویز دی ہے کہ وہ یا سیاست چھوڑ دیں یا دوہری شہریت واپس کر کے سرمایہ اپنے ملک میں لے آئیں۔یہ نوجوان رضاحیات ہراج ہیں‘ ان کا اپنا تعلق بھی حکمران طبقے سے ہے۔ لیکن نوجوان ہونے کی وجہ سے ان کا الارمنگ سسٹم زیادہ موثر اور تیز ہے۔ انہوں نے آنیوالے وقت کی آواز کو قومی اسمبلی میں پہنچا دیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ یہ کام پرامن طریقے سے ہو جائے۔ میں نے چند روز پہلے بھارت میں کرپشن کے خلاف اچانک اٹھنے والی عوامی لہر کی تفصیل اپنے قارئین تک پہنچائی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ ایسی ہی تحریک پاکستان میں اچانک اٹھ کھڑی ہو۔ بھارت میں ابھی جمہوریت پر اعتماد پایا جاتا ہے۔ اسی لئے عوامی مظاہرے کی قیادت کرنے والوں نے قانون سازی کے وعدے پر اعتمادکر کے تحریک کو معطل کر دیا۔ پاکستان میں جمہوریت پر یقین کی وہ کیفیت نہیں ہے۔ یہاں کرپشن کے خلاف بے چینی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی‘ تو پھر کوئی حکمرانوں کے وعدوں پر یقین کر کے واپس اپنے گھر نہیں جائے گا۔ یہاں عوام اپنی بات منوا کر رہیں گے اور مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے خود حساب لینا شروع نہ کر دیں اور ہمارے لیڈروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب عوام حساب لیتے ہیں‘ تو وہ کس طرح کا ہوتا ہے؟
پاکستانی سیاست بھی عجیب ہے۔ جو کوئی جس سیاسی جماعت کا حامی ہوتا ہے‘ اس کی کوئی غلطی اسے نظر نہیں آتی اور باقی جن کی مخالفت کرتا ہے‘ انکی کوئی خوبی دیکھنا اسے پسند نہیں ہوتا۔ میں یہ بات بلا امتیاز لکھ سکتا ہوں کہ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اور لیڈر ایسا نہیں رہ گیا‘ جس نے کسی نہ کسی وقت فوجی حکمرانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ مگر سب ایک دوسرے کو طعنہ یہی دیتے ہیں کہ وہ آمریت کا ساتھ دیتا رہا۔ مثلاً ن لیگ جب ق لیگ سے یہ کہتی ہے کہ تم نے فوجی حکومت کا ساتھ دیا‘ تو یہ بھول جاتی ہے کہ ضیاالحق کون تھا؟ اور جب پیپلزپارٹی کسی دوسرے کو یہ کہتی ہے‘ تو اسے بھی یاد نہیں رہتا کہ ایوب خان کون تھا؟ جب مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کے ساتھ وفاق اور پنجاب میں شریک اقتدار ہوتی ہے‘ تو یہ جائز ہے۔ مگر جب مسلم لیگ (ق) اس پر غور کرتی ہے‘ تو اس کی مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ابھی اس نے کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا۔ میں یہ راز نہیں کھولنا چاہتا تھا کہ فوج اور سیکورٹی ایجنسیز کے خلاف شعلہ افشانی کرنے والوں نے چند ماہ پہلے انہی سے مدد مانگی تھی کہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے ان کی مدد کی جائے۔ مگر جب بری بھلی جیسی بھی جمہوریت چل رہی ہے‘ اس کے خلاف کسی سازش میں شریک ہونے سے انکار کر دیا گیا‘تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر جس کو وزارت عظمیٰ کی امید تھی‘ اس نے توپوں کے دہانے کھول دیئے۔ کیا آج کی فوجی قیادت کا محض یہ قصور ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کر رہی؟ اور سکیورٹی ایجنسی تو قومی دفاع کے ستونوں میں ہوتی ہے۔ ہماری سکیورٹی ایجنسی کے خلاف دہلی اور واشنگٹن سے آوازیں اٹھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اپنے گھر میں کوئی دشمن کے لہجے میں بات کرے تو سمجھ میں نہیں آتی۔